Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
(اے نبی ! ) آپ ملک میں کافروں کے اکڑ کر چلنے پھرنے سے دھوکے میں نہ آجانا
ترکیب : متاع قلیل خبر ہے مبتداء محذوف کی اے تقلبہم متاع قلیل لکن مخفف اور مثقل دونوں طرح سے آیا ہے خالدین حال ہے لہم سے اور عامل معنی استقرار ہیں جنت موصوف و صفت مبتدا لہم خبر من اھل الکتاب خبر ان لمن یومن اسم خاشعین حال ہے ضمیر یؤمن سے اور جمع بلحاظ معنی لفظ من ہے۔ تفسیر : ان پرہیزگاروں کے مقابلہ میں ان لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ جو صرف دنیاوی جاہ و حشمت پر مغرور ہو کر ملک میں اکڑتے پھرتے ہیں جو ایک بہت ہی قلیل پونجی ہے اور نیز مشرکین اپنے دنیاوی عیش و آرام پر نازاں ہو کر فقرائِ مہاجرین و انصار سے جن پر تنگدستی بےامنی محیط تھی طعن کے طور سے کہا کرتے تھے کہ تمہاری خدا پرستی اور پرہیزگاری دیکھی تم سے ہر حال میں ہم بہتر ہیں۔ عیش و آرام میں بلا قید حلال و حرام ہر طرح کے مزے اڑاتے ہیں نہ روزہ نماز کی تکلیف ‘ نہ راتوں کو جاگنے دعا مانگنے کا جھگڑا۔ جب تم کو یہیں کچھ نہیں ملا تو وہاں کیا ملے گا۔ صرف توہمات اور خیالی باتوں پر شادماں ہونا اور مصائب اٹھانا ان ہی احمقوں کا کام ہے کہ جن کو محمد ﷺ نے اپنے جادو سے دیوانہ کردیا ہے۔ ان کے خیال باطل کا رد کیا جاتا ہے کہ لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد اے مخاطب تم ان کے ملک میں اس اکڑتے پھرنے سے اور اس قدر قلیل جاہ و عیش سے جو آخرت اور نعیم باقیہ کے مقابلہ میں ہیچ ہے دھوکہ میں نہ پڑجانا کہ پرہیزگاری اور خدا پرستی کا کوئی عمدہ نتیجہ نہیں۔ متاع قلیل یہ ایک تھوڑا سامان ہے اور بہت ہی بےثبات بھی ہے۔ خدا نے اپنی کسی مصلحت سے ان کو دے رکھا ہے۔ اس پر نظر بھی نہ ڈالنا۔ ثم وماوھم جہنم وبئس المہاد تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔ یہ چند روزہ کامرانی ہے لکن الذین اتقوا ربہم لیکن کامرانی اور حیات جاودانی تو ان کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور اسی کے لئے خدا پرستی اور پرہیزگاری کرتے ہیں لہم جنت تجری من تحتہا الانہار ان کے لئے ایسے باغ تیار ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہا کریں گے۔ وہ اس دنیا میں مسافرانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ مسافر کو اصلی مقام کی راحت کا خیال ہونا چاہیے۔ یہ لوگ جب اس سفر دنیا سے اپنے مقام پر آئیں گے تو یہ سامان ان کو نزلا من عند اللہ خدا کی طرف سے مہمانی میں ملیں گے اور ان چیزوں کے اور جو کچھ چیزیں خدا کے پاس ہیں ابرار یعنی نیکوکاروں کے لئے موجود ہیں وہ کہیں بہتر ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس عالم میں کسی کو بھی بقاء نہیں لاکھوں کو مرتے دیکھتے ہیں پھر رہی یہ بات کہ یہاں کے بعد کوئی اور عالم بھی ہے کہ جہاں ہم کو جانا اور جا کر اپنے اعمال کا نتیجہ پانا ہے جس کی اس کے رسولوں نے خبر دی ہے تو پھر ان نعمتوں کے مقابلہ میں اس چند روزہ سامان پر بس کرنا سخت نادانی ہے۔ اس بات پر سوائے دلائلِ عقلیہ کے تمام سلسلہ انبیاء کی بھی شہادت بس ہے کہ جس کو بعض اہل کتاب ادا کر رہے ہیں اور وہ کون ہیں لمن یومن باللّٰہ الخ کہ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ مسلمانوں کی طرف بھیجا گیا ہے یعنی قرآن اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اس میں اس بات کی صاف تصریح کی ہے کہ وہ اللہ سے بھی ڈرتے رہتے ہیں اور خدا کی آیات کو تھوڑے داموں سے بھی نہیں بیچتے۔ دنیا جتنی کچھ ہو تھوڑے دام ہیں سو ان کے لئے بھی ان کا اجر خدا کے پاس ہے۔ یاں خدا ترس اہل کتاب کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے نبی خاتم الزماں کی تصدیق کی تھی جیسا کہ یہود میں عبداللہ بن سلام اور عیسائیوں میں سے حبشہ کا بادشاہ نجاشی وغیرہم ؓ اور ممکن ہے کہ اہل کتاب کے نقص بیان کرنے کے بعد ان میں سے خدا پرستوں کو مستثنیٰ کیا گیا جو انصاف کا مقتضٰی ہے اس کے بعد پھر مسلمانوں کی طرف روئے سخن کرکے ان کو صبر اور خدا پرستی پر قائم رہنے اور پرہیزگاری پر ثابت رہنے کی طرف متوجہ فرما کر کلام کو کس خوبی سے تمام کردیا۔ بقولہ یایہا الذین امنوا اصبروا الخ کے ان کو پڑا بکنے دو تمہارا جو کام ہے وہ کئے چلے جائو۔ واضح ہو کہ انسان کے دو حال ہیں ایک دنیا کا معاملہ ‘ دوسرا خدا کا معاملہ۔ پھر دنیا کے معاملہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اپنے اوپر مشقت گوارا کرنا دوسرے کو تکلیف نہ دینا۔ ایک یہ کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی سلوک و احسان کرنا پھر اس کی بھی دو قسم ہیں۔ اول یہ کہ خاص اپنی ذات سے علاقہ رکھے۔ سو اس کو تو اصبروا میں ذکر کیا۔ صبر نفس کو روکنا اور برداشت کرنا ہے۔ پھر اس صبر کے بہت سے اقسام ہیں۔ صبر کے اقسام : (1) یہ کہ توحید اور عالم آخرت کے پہچاننے میں جو کچھ غور اور فکر کرنے میں مشقت ہو اس پر صبر کرے۔ (2) واجبات کے ادا کرنے میں جو مشقتیں پیش آئیں روزہ میں بھوک پیاس ‘ جہاد میں گرمی میں چلنا دشمن سے لڑنا ‘ تبلیغ احکام میں وعظ و پند اور دین کی منادی میں جاہلوں کی بدکلامی سننا سب پر برداشت کرے۔ (3) نفس کی خواہش روکنے میں جو کچھ مشقت پیش آوے اس پر صبر کرے حسین عورت کی طرف حرام کرنے کے لئے دل مائل ہو اس کو روکے۔ الغرض منہیات سے بچنے میں کوشش کرے۔ (4) مصائبِ دنیا مرض ‘ موت ‘ قحط ‘ تنگدستی ‘ خوف ‘ وغیرہ مصائب پر برداشت کرے۔ سب باتیں اصبروا میں شامل ہیں۔ وہ جو اوروں سے علاقہ رکھتی ہیں۔ اس میں یہ ہے کہ گھر کے لوگوں اور ہمسایہ اور اہل شہر اور قوم کے اخلاق رذیلہ پر برداشت کرے۔ انتقام لینے میں اور غصہ کے فرو کرنے میں دل کو روکے رکھے یہ سب باتیں صابروا میں آگئیں۔ رہا دوسروں پر احسان کرنا صلہ رحمی وغیرہ سو وہ رابطوا میں آگئیں۔ ربط کہتے ہیں باندھنے اور لگانے کو خواہ دل کو محبت الٰہی سے باندھے یا جہاد میں گھوڑے باندھے یا شب کو مخالفوں کے لئے پہرہ دینے پر دل کو باندھے یا انتظار صلوٰۃ میں دل لگاوے یا عزیز قریبوں سے واسطے قائم رکھے۔ اس لفظ میں سب معنوں کی گنجائش ہے اور اسی لئے ہر ایک مفسر نے ان میں سے ایک معنی اختیار کئے ہیں اور احادیث میں بھی ہر معنی کی طرف اشارہ ہے۔ رہا خدا کا معاملہ سو وہ اتقوا اللّٰہ میں آگیا۔ ایک جملہ میں حکمت نظریہ اور حکمت عملیہ اور ان کی جمیع اقسام تہذیب اخلاق ‘ سیاست مدن ‘ تدبیر منزل وغیرہ سب کو جمع کردیا اور پھر حکمت کے ثمرہ فلاح کی طرف بھی کس مجمل لفظ میں اشارہ کیا جو ہر قسم کی فلاح کو شامل ہے۔ فلاح دنیا اور فلاحِ آخرت سب آگئیں۔ اس سورة میں مبداء اور معاد دار آخرت کے حالات ‘ خدا کے صفات ‘ نیکی کے نتائج اور نیکوں کا رویہ اور بد لوگوں کا انجام ‘ اشاعت دین میں استقلال انبیاء اور ان کے پیرئوں کے مختصر واقعات بیان کرکے سعادت کے عمدہ نتیجہ فلاح پر کس خوبی سے کلام تمام کیا ہے اور ہر ایک مضمون کو دوسرے سے عجب مربوط کیا ہے۔
Top