Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 23
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُدْعَوْنَ : بلائیے جاتے ہیں اِلٰى : طرف كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر يَتَوَلّٰى : پھرجاتا ہے فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے وَھُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
(اے نبی ! ) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو کتاب میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف اس لئے بلائے جاتے ہیں کہ وہ کتاب ان کا جھگڑا فیصل کر دے (اس پر بھی) انہیں کا ایک فریق منہ موڑ کر پھرا جاتا ہے۔
ترکیب : یدعون موضع حال میں ہے الذی سے اور ھم معرضون جملہ موضع رفع میں ہے ‘ صفت ہے فریق کی یا حال ہے ضمیر محرور سے۔ ذلک مبتداء بانہم خبر فکیف موضع نصب میں ہے اور عامل اس میں محذوف ہے تقدیرہ کیف یصنعون۔ لا ریب فیہ جملہ صفت ہے یوم کی ووفیت اس پر معطوف والعائد محذوف۔ تفسیر : یہ ان اہل کتاب کی ایک خصلت بد بیان کی جاتی ہے اور اس کا سبب بھی بتایا جاتا ہے کہ مذہب انبیائی میں تحریف کرکے انہوں نے چند ڈھکوسلے بنا رکھے ہیں جن کے اعتماد پر وہ ایسا کرتے ہیں۔ خصلت بد یہ تھی کہ جب ان کو باہمی منازعات کے فیصلہ کے لئے کتاب اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا کہ جو کتاب اللہ کہہ دے ٗ اس کو مانو تو وہ روٹھ کر چلے جاتے تھے۔ چناچہ ایک بار جیسا کہ کتب حدیث میں مذکور ہے یہ ہوا کہ یہود میں ایک مرد و عورت شریف اور دولتمند نے زنا کیا اور ان کے علماء نے بلحاظ دولتمندی اصلی حکم جاری کرنے میں حیلہ بہانہ کیا اور باہم جھگڑا ہونے لگا تو وہ لوگ فیصلہ کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت شریف میں حاضر ہوئے اور عبداللہ بن صوریا یہودی عالم بھی آیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ٗ حکمِ الٰہی ان کے لئے کتاب اللہ یعنی قرآن میں یہ ہے کہ ان کو پتھروں سے مارا جاوے (جس کو رجم کہتے ہیں) اور یہی حکم تورات 1 ؎ میں بھی ہے۔ عبداللہ نے کہا نہیں ہے ٗ آپ نے فرمایا ٗ اچھا تورات لائو جب لائے اور اس مقام کو نکالا تو عبداللہ نے اس جگہ انگلی رکھ کر چھپانا چاہا مگر عبداللہ 2 ؎ بن سلام ؓ نے ہاتھ اس کا اٹھا کر وہ آیت پڑھ دی۔ تب آنحضرت ﷺ نے رجم کا حکم دیا جس پر یہود اور ان کے علماء آنحضرت ﷺ سے اور بھی زیادہ ناراض ہوگئے اور اکڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ان کا اس کتاب کی نسبت بھی کہ جس کو یہ برحق سمجھتے ہیں ٗ یہ حال ہے تو پھر قرآن کی نسبت کیا ٹھکانا ہے ؟ اور اس بےدینی اور بےباکی کا سبب یہ ہے کہ ان کے پیرومرشد نے چند ڈھکوسلے ان کے دل میں بٹھا دیے تھے یہ کہ بجز چند روز کے یہود کو نسل ابراہیم ہونے کے سبب عذاب نہ ہوگا جس پر وہ مغرور تھے۔ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کہ جس میں کوئی بھی شبہ نہیں جب ہم ان کو جمع کریں گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا و سزا ملے گی تو پھر ان کو ان خیالات خام کی حقیقت معلوم ہوجاوے گی۔ دراصل اب بھی سینکڑوں فرقے مذہبی ڈھکوسلوں پر نازاں ہیں۔ ہندوئوں کے پنڈتوں نے ہزاروں ایسے مسئلے بنا رکھے ہیں۔ عیسائیوں نے یہ بات بنا رکھی ہے کہ مسیح جملہ گناہوں کا کفارہ ہیں۔ فائدہ : یدعون الی کتاب اللّٰہ عبداللہ بن عباس ؓ کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ کس لئے کہ جب ان پر حجت قائم ہوچکی تب کتاب اللہ کی طرف بالخصوص اس فیصلہ کے لئے بلانا کہ جس کو وہ بھی تسلیم کرتے تھے ٗ بہت ٹھیک تھا اور یہ بھی 1 ؎ کتاب احبار کے باب 2 دس میں تصریح ہے۔ 12 منہ۔ 2 ؎ عبداللہ بن سلام ؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ پہلے ان کا نام حصین تھا رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام عبدالسلام رکھا۔ تورات کے بڑے عالم تھے۔ 42 ھ میں انتقال ہوا۔ ممکن ہے کہ عموماً تورات و انا جیل و دیگر صحف مراد ہوں کیونکہ اپنے زعم میں وہ سب کو کتاب اللہ کہا کرتے تھے۔ پھر جب ان کی بشارات کی طرف کہ جو آنحضرت ﷺ کی شان میں تھیں (اور کچھ اب ہیں) ہدایت کی جاتی تھی تو ہرگز نہیں مانتے تھے۔
Top