Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بیشک سب سے زیادہ ابراہیم سے انہیں کو یگانگت ہے جو اس کے پیرو ہیں اور اس نبی (محمد) اور ایمانداروں کو بھی اور اللہ ایمانداروں کا حامی ہے۔
ترکیب : اولی اسم تفضیل ہے ولی یلی بمعنی قریب شدن سے یہ اسم ان کا ‘ بابراھیم متعلق ہے اولی سے للذین مع معطوف خبر ان لویضلون میں لو مصدریہ ہے بمعنی آن۔ الالمن تبع استثناء ہے ما قبل سے ای لاتقروالالمن پس لازم زائد نہیں اور ممکن ہے کہ زائد اور محمول علی المعنی ہو۔ ای احجدوا کل احد الامن۔ ان یوتی میں تین احتمال ہیں (1) یہ کہ موضع جر میں ہو تقدیرہ ولا تو منوابان یوتی احد الخ (2) نصب حرف جر کو حذف مان کر ان صورتوں میں یہ تتمہ کلام یہود کا ہوگا کہ تم اے یہود کسی غیر سے یہ نہ کہو کہ ہماری کتاب اور ملت کے مانند کسی اور کو بھی ملا ہے (اویحا جو کم کا عطف ان یوتی پر ہوگا اور او بمعنی و) ایسا نہ ہو کہ مسلمان تم کو عند اللہ الزام دیں۔ اس تقریر پر ایمان بمعنی اقرار ہے قل ان الہدی الخ جملہ معترضہ ہوگا خدا کی طرف سے جیسا کہ کفر کی بابت نقل کرتے وقت نعوذ باللہ کہتے ہیں (3) یہ خدا کی طرف سے جملہ ہو جو بمعنی مفعول لہ ہے یعنی اے یہود تم اس حسد سے یہ باتیں کرتے ہو کہ تمہاری طرح اوروں کو کتاب ملی یا اس خوف سے کہ مسلمان تم کو الزام دیں گے سو یہ تمہارا خیال لغو ہے ہدایت اور فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ مختار ہے جس کو چاہے دے اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ تفسیر : پہلے ذکر تھا کہ ہر فریق ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اب فرماتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا واسطہ نسل اور اولاد ہونے سے نہیں بلکہ اتباع سے کسی بزرگ کے ساتھ محبت و اختصاص اس کے اتباع سے مربوط ہے۔ رسمی باتوں سے کوئی ثمرہ نہیں اصلی متبع ابراہیم کے یہ نبی یعنی رسول کریم اور ان کی امت ہے جو اصول ملت کے پیرو ہیں۔ اس کے بعد اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے مکر ذکر فرما کر ایمانداروں کو ہوشیار کرتا ہے تاکہ ان کے دائو میں نہ آجاویں کیونکہ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ دین اسلام سے برگشتہ کرکے اپنی طرف پھیر لیں۔ منجملہ ان کے مکروں کے یہاں چند مکر ذکر کرتا ہے۔ (1) یہ کہ حضرت ﷺ کے معجزات کو سحر کہتے تھے اور ان بشارتوں کو جو کتب سابقہ میں ہیں باوجود شہادت دینے کی تاویلیں کرکے انکار کرتے تھے۔ اس کو لم تکفرون الخ میں ظاہر کیا جان بوجھ کر احکامِ الٰہی میں تحریف کرتے اور اسلام سے اس کو دوسرے طور پر کچھ ملا کردکھاتے تھے تاکہ ایک دوسرے میں تصدیق اور مطابقت نہ ہو جس سے لوگوں کو شبہ پیدا ہو لم تلبسون الخ (2) یہ کہ چند لوگوں سے کہا جائو تم اول دن میں مسلمان ہوجانا پھر شام کو انکار کردینا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کوئی ایسی ہی بات اسلام میں دیکھی ہوگی جو یہ اس سے پھرگئے جس سے مسلمان بھی پھر جاویں وقالت طائفۃ۔ (3) یہ کہ کوئی کچھ ہی کہے اپنے دین کے سوا کسی کو نہ ماننا کیونکہ ہماری مثل اور کون ہے کہ جس کو کتاب ملی ہے۔ اس کے جواب میں خدا فرماتا ہے یہ اس کا فضل ہے ٗ کچھ یہود ہی پر خاص نہیں۔
Top