Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور جبکہ ان میں سے ایک جماعت کہنے لگی کہ مدینہ والو تم (مقابلہ میں) ٹھہر نہ سکو گے سو ہٹ چلو اور ان میں سے کچھ لوگ نبی سے رخصت مانگنے لگے۔ کہنے لگے کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں اور حالانکہ وہ اکیلے نہ تھے۔ وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے
ترکیب : یثرب غیر منصرف للتعریف و وزن الفعل وفیہ التانیث، یقولون حال او تفسیر لیستاذن عورۃ اے ذات عورۃ ویقرء بکسر الواو و الفعل منہ عور فھو اسم فاعل، لاتوہا بالقصر جاؤ ہاو بالمداعطوھا ماعندھم من القوۃ الایسیرا لبثایسیرا او زمانا یسیرا ای قلیلا۔ لایؤلون الادبار جواب القسم لان عاھد وابمعنی اقسموا ھلم ذکر فی الانعام الا انہ ھھنا متعدد ھذ الازم اشجۃ جمع شحیح بمعنی بخیل و نصبھا علی الحال من فاعل باوعلی الذم واشحۃ الثانی حال من الضمیر فی سلقوکم ینظرون حال من رایتہم بمعنی ابصرتھم تدورحال من فاعل ینظرون۔ تفسیر : ان آیات میں خدا تعالیٰ منافقوں کے ظنون فاسدہ اوراقوال کاذبہ کو نقل کرتا ہے جو اس حادثہ میں بجائے صبرو استقلال کے ان سے ظہور میں آئے اور اس واقعہ میں ان کی لاف زنی کا امتحان ہوگیا۔ تاکہ وقت مصائب اہل اسلام ایسے خیالات فاسدہ دل میں نہ لائیں۔ آیات میں کوئی بات چنداں تفسیر کرنے کے لائق نہیں، صاف ہیں۔ واذا قالت طائفۃ منہم یعنی منافقون کی ایک جماعت نے یہ کہا مقاتل کہتے ہیں وہ بنو سالم کے منافق تھے۔ سدی کہتے ہیں عبداللہ بن ابی اور اس کے یاروں نے کہا تھا، بعض کہتے ہیں بن قیظی اور اس کے دوستوں نے کہا تھا کہ یا اہل یثرب لامقام لکم کہ اے مدینہ والو تمہارے لیے یہاں ٹھہرنے کی جگہ نہیں یا تم دشمن کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتے۔ میدان جنگ چھوڑ کر اپنے اپنے گھر چلو یا تم دین اسلام پر قائم نہیں رہ سکتے، دین چھوڑ کر کفر کی طرف رجوع کرو کہ دشمنوں سے پناہ پائو۔ یثرب ‘ ابو عبیدہ کہتے ہیں یثرب زمین کے ایک قطعہ کا نام ہے اور مدینہ اس کے ایک گوشہ میں آباد ہے، بعض کہتے ہیں خاص مدینہ کا پہلا نام یثرب ہے، بخاری و مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا مجھے ایسے شہر میں رہنے کا حکم ہوا جو اور شہروں کو کھا جاوے، اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے۔ الحدیث اس سے معلوم ہوا کہ یثرب مدینہ ہے اور آپ نے پھر یثرب نام لینے سے منع کیا، جیسا کہ امام احمد نے روایت کیا ہے تو اس لیے کہ یثرب کے نام میں سرزنش کے معنی پائے جاتے ہیں، اس لیے مدینہ نام لینا بہتر ٹھہرایا۔ ویستاذن فریق اور ایک جماعت منافقون کی آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگتی تھی کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں، اجازت دیجئے کہ میدان چھوڑ کر گھر جاویں۔ یہ لوگ بنو حارثہ و بنو سلمہ کے تھے۔ خدا تعالیٰ ان کے عذر کو باطل کرتا ہے کہ یہ صرف انہوں نے بھاگنے کے لیے بہانہ بنایا ہے۔
Top