Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓئِكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا
هُوَ الَّذِيْ : وہی جو يُصَلِّيْ : رحمت بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَلٰٓئِكَتُهٗ : اور اس کے فرشتے لِيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں نکالے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں اِلَى النُّوْرِ ۭ : نور کی طرف وَكَانَ : اور ہے بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَحِيْمًا : مہربان
وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (کفر کی) اندھیریوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لائے اور وہ ایمان والوں پر بڑا مہربان ہے۔
ھوالذی یصلی علیکم و ملائکۃ ‘ صلوٰۃ کا لفظ جب اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس سے مراد رحمت ہوتی ہے اور جب ملائکہ کی طرف تو استغفار مگر یہاں مراد معنی مشترک ہیں، وہ عنایت و توجہ بطرف اصلاح کار بندگان یہاں سے یہ بات بتلاتا ہے کہ اللہ اور عالم بالا کو تمہارے حال پر مہربانی ہے، اس لیے اس نے رسول بھیجا۔ لیخرجکم من الظلمات الی النور تم کو ظلمات سے نکال کر روشنی میں لاوے۔ وکان بالمؤمنین رحیما وہ مومنین پر نہایت مہربان ہے، یہ دنیا کی رحمت ہے اور آخرت میں تحیتہم یوم یلقونہ سلام جس دن ملیں گے یا مرنے کے بعد وہ ان سے السلام علیکم کہے گا جس کے معنی یہ کہ تم پر سلامتی ہو۔ واعد لھم اجرا عظیما اور ایمانداروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کی شرح کرتا ہے کہ نبی کریم کے اوصاف بیان فرماتا ہے۔ فقال یا ایہا النبی انا ارسلنک شاھدا و مبشرا و نذیرًا و داعیا الی اللہ باذ نہ و سراجا منیرا کہ اے نبی ! ہم نے (یہ نہیں کہ ازخود بن گیا) تجھ کو بھیجا ہے شاہد اور مبشر اور نذیر اور داعی الی اللہ اور سراج منیر بناکر۔ شاہد نبی ہے عقول و آراء لوگوں کے تعارض میں اور عادات و رسوم کے اختلاف میں اور تجارب کی کشمکش میں کہ جہاں کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ رائے لگاتا ہے، خدا کی طرف سے اصلی اور سچی بات کے حق ہونے کی شہادت یعنی گواہی دیتا ہے، اس کی شہادت پر فیصلہ ہوتا ہے۔ وہی لوگوں کو نیک کاموں کے عمدہ نتیجہ کا مژدہ اور بشارت دے کر کمرہمت بندھوا دیتا ہے۔ سعادت حاصل کرنے میں سرگرم کردیتا ہے۔ وہی بارگاہ کبریائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، اس کے حکم سے اس کے گھر میں جاکر نعمتیں حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ صلاے عام پکارتا ہے، ادھر آؤ شہنشاہ حقیقی کی بارگاہ میں تم کو میں لے چلوں میرے پیچھے پیچھے چلے آئو، کوئی مانع نہ ہوگا۔ وہی سراج منیر چراغ روشن ہے۔ (سراج منیر محاورہ عرب میں آفتاب کو کہتے ہیں، تمام دنیا ظلمات اور اندھیروں میں ٹکراتی پھرتی تھی، جب اللہ تعالیٰ کا یہ جہاں آفتاب مکہ کے پہاڑوں پر جلوہ گر ہوا اس نے مشرق سے مغرب تک کو منور کردیا، جس نبی میں یہ اوصاف ہوں اور اس نے دنیا کو منور کردیا ہو، اس کے بعد اور نبی آکر کیا کرے گا، ایک آفتاب کے بعد دوسرے کی کیا ضرورت ؟
Top