Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
ایماندارو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں کہ جس کی تم کو گنتی پوری کرنی پڑے، بس ان کو کچھ دے دو اور خوش اسلوبی سے چھوڑ دو ۔
ترکیب : وامراۃ منصوب بفعل محذوف یفسر و ما قبلہ ای حللنا لک امراۃ مؤمنۃ ویمکن ان یکون معطوفا علی ماسبق ولا یمنعہ ان التی للاستقلال فی قولہ ان وھبت لان المراد بالاحلال الاعلام بالحل اذا وقع الفعل علی ذلک کما یقال ابحت لک الکلام بزیدان سلم علیک خالصۃ یمکن ان یکون حالا من الضمیر فی وھبت وان یکون صفۃ المصدر اے ھبۃً ویجوزان یکون مصدرا ای اخلصنا لک ذلک اخلاصا و قد جاءت فاعلہ مصدر امثل العاقبۃ۔ تفسیر … اول حکم : اس کے بعد خود اس صلائے عام کا نبی ( علیہ السلام) کو حکم دیتا ہے۔ فقال وبشر المؤمنین بان لہم من اللہ فضلا کبیرا کہ ایمانداروں کو خوشخبری دے کہ اللہ کا ان پر بڑا فضل ہے۔ دنیا میں ان کو ہر طرح سے سرفرازی دے گا۔ آخرت میں اجر عظیم دے گا۔ اب رہے کافر و منافق جو تصدیق نہیں کرتے اور طرح بطرح کے بہتان باندھتے اور طعن کرتے ہیں اور آپ کو اپنی مرضی کے موافق کرنا چاہتے ہیں۔ پس ولا تطع الکافرین والمنافقین ان کا کہنا نہ مان ودع اذاھم اور ان کی تکلیف اور ایذا سے درگزر کرو توکل علی اللہ اور اللہ پر بھروسہ رکھو یہ تمہارا کیا کرسکتے ہیں۔ وکفیٰ باللہ وکیلا اور اللہ کارسازی کے لیے بس ہے۔ آپ کو ان کی کیا احتیاج ہے جو نہیں مانتا نہ مانے، زینب ؓ کے نکاح کا حضرت سے پچھلی آیتوں میں تذکرہ تھا، اس لیے کچھ احکام نکاح و طلاق و عدت کے متعلق بیان فرماتا ہے۔ فقال یا ایھا الذین آمنوا اذا نکحتم المؤمنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیہن من عِدَّۃٍ تعتدونہا۔ یہ ایک حکم ہے کہ جس ایماندار عورت سے نکاح ہوا، پھر اس کے پاس جانے سے پہلے اس کو طلاق دینے کی ضرورت پڑجاوے تو اس عورت کے لیے کوئی عدت نہیں کہ جس کو تم گنو۔ اس کو اختیار ہے کہ طلاق کے بعد فوراً اور سے نکاح کرلے۔ من قبل ان تمسوھن ہاتھ لگانے سے پہلے، اگر اس کے معنی صحبت کرنا لیا جاوے تو صحبت کرنے سے پہلے طلاق دینے میں عدت نہیں، اس سے یہ بات پیدا ہوگی اگر صحبت نہیں کی اور خلوت ہوئی تب بھی عدت نہیں، جیسا کہ امام شافعی (رح) کہتے ہیں اور اگر اس لفظ کو عام لیا جاوے کہ جس میں خلوت بھی آگئی، تو یہ معنی ہوں گے کہ صحبت اور خلوت سے پیشتر طلاق دینے میں عدت نہیں، پس اگر خلوت کا اتفاق ہوا اور صحبت نہ کی اور طلاق دے دی تو عدت بھی لازم ہوگی اور مرد کو پورا مہر بھی دینا پڑے گا، کیونکہ خلوت بمنزلہ صحبت کے ہے اور اس بات کا امتیاز کہ خلوت کے بعد صحبت کی یا نہیں مشکل ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد ; کا یہی قول ہے اور قرطبی اور ابن کثیر نے اس بات پر اجماع ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ مسئلہ اجماعی ہے۔ عدت تین حیض تک نکاح کرنے سے رکا رہنا اس عرصہ میں عورت اور سے نکاح نہ کرے اور جو حیض نہیں آتا تو تین مہینے تک بند رہے۔ المؤمنات کا لفظ یہ کہتا ہے کہ حکم مسلمان عورت کے لیے ہے، مگر حکم عام ہے۔ اگر اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرکے صحبت سے پہلے طلاق دے دی تو اس کے لیے بھی عدت نہیں، مگر مومنات کا لفظ اس لیے آیا کہ مسلمان کو بہتر یہی ہے کہ مسلمان ہی عورت سے نکاح کرے اور ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ پس یہ قید احترازی نہیں بلکہ اتفاقی ہے کہ یونہی اتفاق ہوا کرتا ہے۔ نکاح کے لغوی معنی صحبت کرنے کے ہیں، مگر قرآن میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے تو اس سے مراد عقد ہے، خواہ بطور حقیقت خواہ بطور مجاز فما لکم کا لفظ یہ کہہ رہا ہے کہ عدت میں عورت کو رکھنا مرد کا حق ہے، اگر وہ عدت میں نکاح کرنا چاہے تو یہ اس کو روک سکتا ہے، تعتدونہا من عددت الدراہم اس کے معنی گنتی کے ہیں اور بعض نے اس کو بالتخفیف بھی پڑھا ہے تو یہ اعتداء بمعنی ظلم سے ہوگا، جس کے معنی یہ ہوں گے کہ ان پر اس صورت میں عدت نہیں کہ جس کے اندر تم ان پر زیادتی کرو۔ والاول اقوٰی۔ شریعت نے عورت کے لیے عدت اس لیے مقرر کی ہے کہ حمل کا حال معلوم ہوجاوے۔ اگر فوراً نکاح کرلے یہ نہ معلوم ہو کہ پہلے خاوند کا حمل ہے یا دوسرے کا، جب صحبت نہیں تو پھر عدت سے کیا فائدہ ؟ دوسرا حکم : فمتعوھن و سرحوھن سراحًا جمیلا یہ دوسرا حکم ہے کہ ان کو متعہ دو اور صاف طور سے چھوڑ دو ، پھر ان سے کوئی دعویٰ نہ رکھو، یہ نہ ہو کہ ادھر میں لٹکائے رکھو۔ متعہ : اس عطیہ کا نام ہے جو خاوند کی طرف سے طلاق کے بعد بیوی کو دیا جایا کرتا ہے، جس کی تعیین میں علماء کا کسی قدر اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ اور ابن عباس ؓ کے نزدیک تین کپڑے ہیں اور وہ کس قیمت کے ہوں ؟ یہ غنی اور تنگدست کے حال پر چھوڑا گیا ہے۔ کما قال علی الموسع قدرہ و علی المقترقدرہ، سورة بقرہ، مگر اس کی قیمت نصف مہر مثل سے زیادہ نہ ہو اور پانچ درہم سے کم نہ ہوں۔ امام شافعی (رح) نے اس کی مقدار حاکم کی رائے پر ٹھہرائی ہے۔ اب کلام ہے تو اس میں ہے کہ ایسی عورت کو کہ جس کو صحبت سے پہلے طلاق دی گئی ہو اس کو متعہ دینے سے کیا مراد ہے ؟ کیا واجب ہے یا مستحب اور اس کے سوا اس کو اور بھی کچھ ملنا چاہیے یا نہیں ؟ یہ مسئلہ سورة بقرہ میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے۔ کما قال وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لہن فریضۃ فنصف مافرضتم الآیۃ ان دونوں آیتوں پر نظر کرکے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر اس عورت کے لیے مہر معین نہیں ہوا اور صحبت سے پہلے طلاق دے دی ہو تو اس کے لیے صرف متعہ دینا واجب ہے، مہر کچھ نہ ملے گا۔ اس آیت احزاب میں غالباً یہی مراد ہے اور اگر مہر 1 ؎ معین ہوچکا ہے تو نصف مہر ملے گا، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت میں ہے اور متعہ دینا اس صورت میں مستحب ہے نہ واجب، یہ اس لیے واجب ہوا کہ آخر اس عورت سے نکاح ہوا ہے۔ گو صحبت نہیں کی اور اس بیچاری کا مہر بھی معین نہیں اور اس پر طلاق کی عار عائد ہوتی ہے، ضرور اس کو کچھ دینا شرط مؤدت ہے۔ یا ایھا النبی انا احللنا لک ازواجک اللاتی اتیت اجورھن یہاں سے وہ احکام بیان فرماتا ہے جو خاص نبی ﷺ سے نکاح کی بابت متعلق ہیں، ہم کہہ چکے ہیں بلکہ ثابت کرچکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے یہ متعدد نکاح جو مدینہ میں آکر ہوئے، ان سے غرض یہی تھی کہ اپنی بیویوں کی ایک جماعت بناکے ان کو دینیات کے سیکھنے پر مامور کریں۔ دراصل یہ بیویاں دینی مدرسہ کے طالب العلم تھیں اور اسی نیت سے ان کو زوجیت میں لیا جاتا تھا تاکہ ان کو نان و نفقہ سے فراغ بالی ہوجائے اور خلوت و جلوت میں آپ سے مسائل سیکھیں، اس لیے ان کے اقسام اور اس مدرسہ کے داخلہ کے دستور اور پھر ان کے اسی غرض کے لحاظ پر حقوق بیان فرمانا ہے۔ ان بیویوں کی کئی قسم تھیں، یعنی کئی ایک طور سے آپ کے زنانہ مدرسہ میں ان کا داخلہ ہوا تھا۔ قسم اول : وہ بیویاں ہیں کہ جن کا معمولی طور پر نکاح ہوا اور آپ نے ان کا مہر ادا کردیا، جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ اجور جمع اجربمعنی مہر۔ اٰتیت کے یہ معنی نہیں کہ جن کے مہر ادا کئے گئے، وہی آپ کو حلال تھیں اور جن کے ادا نہ ہوئے وہ حلال نہ تھیں، کیونکہ اگر سرے سے مہر کا ذکر بھی بوقت نکاح نہ آوے یا ادا نہ کیا جاوے یا مؤجل قرار پاوے سب صورتوں میں بیوی بالاتفاق حلال ہے بلکہ قید اتفاقی ہے، کس لیے کہ عرب میں مہر کم ہوتے تھے اور شوہر ان کو پہلے سے ادا کر ہی دیا کرتا تھا۔ یہ لاکھوں اور ہزاروں کے مہر نہ تھے، جو محض فخراً باندھے جاتے ہیں، جن کامیاں تو کیا اس کے خاندان سے بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس آیت کی بابت ابن زید ضحاک یہ کہتے ہیں کہ اس میں عام اجازت ہے کہ آپ محارم کے سوا جس سے چاہیں بلا تعداد نکاح کرلیں۔ مہر ادا کردیں، وہ مباح ہیں، جمہور کا یہ قول ہے کہ یہ حضرت ﷺ کی موجودہ بیویاں کی حلت بیان کی گئی ہے کہ جن کا آپ مہر ادا کرچکے تھے۔ اگر تعمیم ہوتی تو بنات عمک الخ جو آگے آتا ہے بیکار ہوجاتا ہے۔ قسم دوم و ما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک وہ عورتیں جو آپ کے ہاتھ کا مال تھیں، غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں، جیسا کہ صفیہ و جویریہ جن کو آپ نے آزاد کرکے ان سے نکاح کیا اور اسی طرح ماریہ تھیں کہ جن کے بطن سے ابراہیم پیدا ہوئے تھے۔ یہ بھی آپ کے مکارم اخلاق میں سے تھا کہ لونڈیوں کو اس مرتبہ علیا پر پہنچادیا۔ مما افاء اللہ کی قید بھی اتفاقی ہے، ورنہ جو لونڈی خریدی جاوے یا ہبہ سے حاصل ہو وہ بھی حلال ہے۔ قسم سوم : و بنات عمک و بنات عماتک و بنات خالک و بنات خالاتک چچا اور پھوپھی اور ماموں اور خالہ کی بیٹیاں بھی حلال ہیں۔ اگر آپ ان سے چاہیں نکاح کریں، مگر اس میں یہ شرط تھی۔ التی ھاجرن معک کہ وہ ہجرت کرکے تیرے ساتھ بھی آئی ہوں، کیونکہ اگر ہجرت میں شریک نہیں۔ گو مومنہ ہوں، ان سے آپ کا نکاح درست نہ تھا۔ ترمذی و ابن جریر و طبرانی نے ام ہانی بنت ابی طالب ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ﷺ نے مجھ سے نکاح کی درخواست کی مگر میں نے ہجرت نہ کی تھی، اس لیے آپ کو منع کردیا گیا۔ قسم چہارم : و امراۃ مومنہ ان وھب نفسہا للنبی وہ عورت جو اپنا نفس نبی کو بخش دے یعنی وھبت لک نفسی کے صیغہ سے نکاح میں آئے، وہ بھی آپ کے لیے حلال تھی مگر صرف اس کا یہ کہہ دینا آپ کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا تھا کہ آپ اس کو خواہ مخواہ اپنی زوجیت میں داخل ہی کرلیں، بلکہ آپ کی مرضی پر منحصر تھا۔ کماقال ان اراد النبی ان یستنکحہا بشرطیکہ نبی کو اس سے نکاح کرنا بھی منظور ہو۔ تب اس کا وھبت نفسی کہنا ایجاب نکاح تھا اور آپ کا قبلت فرمانا قبول انہیں لفظوں سے عقد ہوجاتا تھا، مگر اس میں بھی یہ شرط تھی کہ وہ عورت مومنہ ہو، یعنی مسلمان۔ کتابیہ حضرت ﷺ کے نکاح میں نہیں آتی تھی۔ گو امت کے لیے کتابیہ سے نکاح درست ہے، مگر آپ کے بلند مرتبہ کے لائق یہ ناپاک باطن درست نہ تھی۔ خالصۃ لک من دون المؤمنین یہ نکاح بلفظ ہبہ و بغیر مہر و شہود خاص حضرت ﷺ کے لیے درست تھا نہ کہ اور کسی مسلمان کے لئے۔ بعض علماء نے جیسا کہ سعید بن المسیب و زہری و مجاہد وعطاء و ابن ربیعۃ و شافعی ومالک ہیں۔ خالصۃ لک میں نکاح بلفظ ہبہ کو بھی لیا ہے کہ ہبہ کے لفظ سے نکاح اور کسی کا نہیں ہوسکتا۔ یہ خصوصیت حضرت ﷺ کی تھی، مگر اور علماء خصوصاً کوفہ کے علماء جن میں ابراہیم نخعی و ابوحنیفہ (رح) ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اوروں کا نکاح بھی ہبہ اور تملیک کے لفظ سے ہوسکتا ہے اور آپ کی اس میں خصوصیت نہ تھی۔ خصوصیت صرف مہر اور گواہ نہ ہونے میں تھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ خود حضرت ﷺ کا بھی کوئی نکاح بلفظ ہبہ نہیں ہوا، کس لیے کہ موہوبہ عورت کے بارے میں ان اراد البنی ان یستنکحہا کا لفظ وارد ہے، جو کوئی عورت یہ لفظ کہتی تھی تو گویا اپنا منشاء ظاہر کرتی تھی کہ میں نے اپنی جان کو دینی کاموں کے لیے نبی کی خدمت گزاری کے واسطے ہبہ کردیا، اس کے بعد آپ اس میں صلاحیت دیکھ کر اس کو زوجیت میں داخل کرتے تھے۔ علماء کا اس میں بھی اختلاف ہے، عبداللہ بن عباس ؓ و مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ﷺ کے گھر میں ایسی کوئی عورت نہ تھی کہ جو صرف نفس کو ہبہ کرکے آئی ہو، بلکہ جس قدر عورتیں آپ کے پاس تھیں یہ وہی تھیں کہ جن سے نکاح کیا تھا اور یہ بات بطور شرط و جزاء کے آیت میں ہے کہ اگر کوئی عورت ایسا کرے تو جائز ہے نہ یہ کہ ایسا کسی نے کیا بھی تھا اور علماء کہتے ہیں ہاں ایسی عورتیں تھیں، پھر کسی نے کہا ہے وہ زینب بنت خزیمہ ؓ ہلالیہ تھی، جس کو ام المساکین کہتے تھے۔ عروہ کہتے ہیں وہ خولہ بنت حکیم ؓ تھی۔ قبیلہ بنی سلیم کی۔ بحث قد علمنا ما فرضنا : چوتھی قسم کے سواء ان احکام نبویہ میں اور مسلمان بھی شریک ہیں، البتہ تعداد میں شریک نہیں، یہ چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے۔ اس لیے فرماتا ہے، قدعلمنا مافرضنا علیہم فی ازواجہم کہ ان باتوں میں اور مومنین بجمیع وجوہ شریک نہیں ہیں۔ نہ چار سے زیادہ جمع کرسکتے ہیں، نہ بغیر مہر کے نکاح باندھ سکتے ہیں۔ ان کے اوپر جو کچھ حقوق زوجیت ہم نے مقرر کئے ہیں، وہ ہم کو معلوم ہیں، ہم ان کو بھول نہیں گئے ہیں کہ ان کو بھی ان کے حقوق مقررہ کو نسیاً منسیاً کرکے نبی کے ساتھ شریک کردیا جاوے اور نہ صرف بیویوں ہی کے حق بلکہ وفی ماملکت ایمانہم ان کی لونڈیوں کے بارے میں جو حقوق ان پر مقرر ہیں۔ اہل الذمہ کی عورت لونڈی نہیں ہوسکتی، حربی کی ہوسکتی ہے اور ان کے کھانے پینے کے رعایات اور حسن سلوک وغیرہ وہ بھی ہم کو معلوم ہیں۔ یہ جملہ معترضہ ہے، درمیان خالصۃ لک من دون المؤمنین کے اور درمیان لکیلا یکون علیک حرج کے اور کیلا بیان سابق سے متعلق ہے کہ یہ احکام مذکورہ بالا ہم نے تیرے لیے اے نبی اس لیے نافذ کئے کہ تجھ پر تنگی نہ ہو اور کوئی حرج واقع نہ ہو، بلکہ سہولت اور وسعت ہوجاوے۔ وکان اللہ غفورا رحیما اور اللہ جو ہے تو بخشنے والا مہربان ہے۔ بندوں سے جو احکام کی تعمیل میں کوئی قصور ہوجاوے تو اس پر بھی ہم معاف کردیتے ہیں۔ مہربانی کرتے ہیں اور ہماری مہربانی تھی جو تم پر سہل احکام نازل کئے۔ اس مقام پر کتب اصول فقہ میں ایک دلچسپ بحث کی ہے جس کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ مہر کی کوئی مقدار شرع نے قائم نہیں کی، زیادہ سے زیادہ کہیں تک ہو اور کم سے کم پیسے دو پیسے تک کا ہوسکتا ہے، جو چیز معاملات بیع و شراء میں قیمت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ مہر ہونے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اہل ظواہر کے نزدیک قرآن مجید کی تعلیم بھی مہر ہوسکتی ہے اور ایسی قسم کی خدمات بھی، ان کے دلائل بہت سی صحیح احادیث و اقوال صحابہ ہیں مگر علماء کا ایک فریق کہ جن میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہیں، مہر کی مقدار کمی کی جانب میں شارع کی طرف سے دس درہم ٹھہراتے ہیں کہ زیادہ کا شوہر کو اختیار ہے، مگر کم دس درہم سے نہ ہو، کیونکہ یہ کمی کی حد شرع نے مقرر کردی ہے، ان کے پاس بھی بہت سے دلائل ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ آیت ہے۔ فرض کے لغت میں معنی قطع کے ہیں، اس کا استعمال کبھی بمعنی ایجاب ہوا ہے اور کبھی بمعنی تقدیر یعنی اندازہ کرنا اور عرف شرع میں اس کا اخیر معنی میں اس قدر استعمال ہوا ہے کہ منقول ہونے کے بعد گویا حقیقت عرفیہ ہے، فرض کے معنی اندازہ کرنا اور جب اس کو متکلم کی طرف مستند کیا تو بہ معنی ہوگئے کہ ازواج کے بارے میں جو کچھ ہم نے ٹھہرادیا ہے، یعنی اس کا اندازہ مقرر کردیا ہے، وہ ہم کو معلوم ہے اور کلام مہر میں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مہر اللہ نے ٹھہرادیا اور اس کی حد مقرر کردی، زیادہ کی حد کی تو کوئی ضرورت نہ تھی، البتہ کم سے کم کی حد مقرر کی اور یہ مہر ایک عضو مخصوص کا عوض ہے اور شرع نے کم سے کم اعضاء کے قطع میں جو مقدار قائم کی ہے وہ دس درہم ہے۔ دس درہم سے کم پر چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کٹتا، معلوم ہوا کہ اس عضو کی قیمت یہ ہے، پس اس عضو کو اس پر قیاس کرلیا۔ اس کی بھی دس درہم سے کم قیمت نہ ہونی چاہیے اور آثار صحیحہ میں بھی اس کا بیان آگیا ہے اور صحابہ اور تابعین میں سے بھی اس طرف لوگ گئے ہیں، مگر اس دلیل میں فریق ثانی کو بہت کچھ کلام ہے۔ دوسری بحث : لونڈی غلاموں کی بابت : اس وقت کے نو تعلیم یافتہ یہ کہتے ہیں، غلام لونڈی رکھنا انسانی ہمدردی کے برخلاف اور نہایت مکروہ کام ہے، پھر تعجب ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اس فعل کو روا رکھا اور بہائم کی طرح سے لونڈی غلاموں کو خدمات پر مامور کرنے کی اجازت دی، لونڈیوں سے مباشرت کرنا جائز سمجھا۔ یہ بات پہلے انبیاء کے بھی برخلاف ہے۔ اس کا جواب بعض آزاد لوگوں نے قرآن و احادیث میں تاویل و تحریف کرکے یہ دیا ہے کہ اسلام میں یہ فعل ہرگز درست نہیں ہے، مگر عقلاء کے نزدیک یہ جواب ہو نہیں سکتا کس لیے کہ وہ کہاں تک قرآن و احادیث کی الٹ پلٹ کریں گے، پھر بھی یہ فعل اسلام میں ثابت ہی رہے گا۔ خصوصاً یہ آیات بہ آواز بلند کہہ رہی ہیں کہ اسلام نے لونڈیوں کی معاشرت کی بابت کچھ حقوق مقرر کردیے ہیں اور لونڈیوں سے صحبت کرنا جائز ہے، کما قال تعالیٰ قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجہم او ما ملکت ایمانہم اور اس سے پہلے کی یہ آیت انا احللنا لک ازواجک التی اتیت اجورھن وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک و بنات عمک الخ اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک آسمانی سلطنت قائم کی ہے جس کا وعدہ اگلے انبیاء خصوصاً حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی معرفت ہوا تھا۔ اس سلطنت کا بادشاہ یا دنیا میں قائم کرنے والا حضرت محمد ﷺ ہیں۔ دُنیاوی سلطنتیں خاص جہانداری اور حقوق عباد کے لیے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خداوندی حقوق کا وہ مطالبہ نہیں کرتیں بلکہ آج کل کی شائستہ سلطنتیں ایسے حقوق کے مطالبہ کو برا جانتی ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی خدا تعالیٰ کو اور اس کے جمیع برگزیدہ انبیاء و اولیاء کو برا کہے بت کو پوجے اس کا انکار کرے، کچھ پروا نہیں، لیکن آسمانی سلطنت سب سے اول انہیں، حقوق کا مطالبہ کرتی ہے، اس کا فرض ہے کہ ایسے جرموں کی سزائیں دے اور خصوصاً کفر و شرک کے جرم کا مطالبہ سخت کرے مگر رحم دلی کے ساتھ اس سلطنت میں برتاوا کیا گیا ہے۔ اول ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے اگر نہ مانیں تو اس سلطنت کے خلاف میں ہونے سے ممانعت کی جاتی ہے اور ماتحتی پر مامور کیا جاتا ہے، اگر پھر بھی وہ مقابلہ پر آویں تو جنگ ہوتی ہے جس میں بجز قتل طرفین کے اور کیا ہوا کرتا ہے مگر عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو اس جوش کے وقت میں بھی اس سے محفوظ رکھا ہے، پھر جو لوگ کہ قتل سے آزاد کئے جاتے ہیں، ان کو لونڈی غلام بنایا جاتا ہے۔ پھر ان کے آزاد کرنے کی یہاں تک تاکید اور ثواب بتلایا گیا ہے کہ بہت کو آزادی دلادی جاتی ہے اور غلامی کی حالت میں ان کے وہ حقوق قائم کئے ہیں کہ جو اور قوموں میں آزاد لوگوں کے لیے بھی نہیں، یہ داغ غلامی صرف اس جرمِ آسمانی کی یادگاری ہے۔ اب بتلاؤ اس میں بےرحمی ہے یا ان کے قتل کر ڈالنے میں جیسا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی شریعت میں ہوا، کیا اس میں دنیاوی جرائم کے قیدوں سے زیادہ بےرحمی ہے ؟ موسیٰ ( علیہ السلام) کی شریعت میں بھی غلام لونڈی رکھے جاتے تھے۔ دیکھو توریت 2 ؎ سفر احبار 25 باب درس 44۔ 1 ؎ توریت سفر خروج کے بائیسویں باب 16۔ 17 درس میں عورتوں کو مہر دینے کا ذکر ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں۔ قولہ البتہ وہ مہر دے کہ اس سے نکاح کرے۔ وقولہ وہ کنواریوں کے مہر کے موافق اسے نقد دے یعنی مہر مثل یہ وطی بالشبہ وغیرہ کے احکام ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی شریعت میں بھی مہر دنیا ضروری بات تھی۔ 12 منہ 2 ؎ توریت سفر احبار کے 24 باب 16 ورس میں کفر بکنے والے کو ضرور مار ڈالنے کا حکم ہے۔ 12 منہ
Top