Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 25
كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتٰىهُمُ : تو ان پر آگیا الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر ان پھر اس طرح عذاب آیا کہ ان کو خبر بھی 1 ؎ نہ ہوئی،
ترکیب : قراناً حال مؤکدۃ من ھذا و تسمی حالاً موطئۃ لان الحال فی الاصل ھو عرب یا و قرانا تو طئۃ لہ نحو جاءنی زید رجلا صالحا ھذا قول الاخفش ویمکن ان ینتصب علی المدح رجلاقال الکسائی منصوب لکونہ تفسیر المثل وقیل منصوب بنزع الخافض ای ضرب اللہ مثلاً برجل وقیل رجلا مفعول اول و مثلا مفعول ثان فیہ شرکاء الجملۃ صفتہ لرجل، و فی تتعلق بمتشاکسون سلما بفتح السین و کسرھا وسالما مصدر وصف بہ للمبالغۃ والتشاکس التخالف۔ تفسیر : جبکہ خدا تعالیٰ قاسی القلب لوگوں کے عذاب آخرت کی کیفیت بیان فرما چکا تو دنیا میں بھی ان پر عذاب نازل ہونے کی کیفیت بیان فرماتا ہے۔ فقال کذب الذین کہ ان سے پہلے لوگوں نے جو بڑے سخت دل تھے۔ ہمارے انبیاء اور آیات کو جھٹلایا تھا، پھر ان پر اس طرح سے عذاب آیا کہ ان کو اس کا گمان بھی نہ تھا کہ آرام سے پڑے سوتے تھے۔ بلا آگئی، پھر یہی نہیں کہ وہ ہلاک ہوگئے، بلکہ فاذا قہم اللہ الخزی فی الحیوۃ الدنیا ان کو دنیا میں رسوائی اور ذلت کا بھی خوب مزا چکھایا اور مطلب اس کے ذکر سے یہ ہے کہ پورا عذاب اور کامل بلاوہ ہے کہ جس میں رسوائی اور ذلت اور رنج و غم بھی ہو اور غرض اس سے یہ ہے کہ مخاطبین بھی سن کر خبردار رہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ دنیا ہی کی رسوائی اور عذاب پر بس نہیں بلکہ ولعذاب الآخرۃ اکبر آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ان کے لیے آیا ہے۔ لوکانوا یعلمون اگر وہ اس بات کو خوب جانتے اور عمل کرتے تو ایمان لاتے، مگر ان کو کب باور ہوتا تھا۔ تمسخر ہی کرتے رہ گئے کہ بلا میں گرفتار ہوگئے۔ ان بیانات شافیہ اور فوائدِ متکاثرہ اور مطالب نفیسہ کے بیان کے بعد یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیانات حد کمال کو پہنچ گئے۔ فقال ولقد ضربنا للناس فی ھذا القرآن من کل مثل کہ قرآن میں ان باتوں کو ہم نے خوب کھول دیا ہے، ہر ایک بیان کو مثال کی طرح واضح کردیا ہے۔ لعلہم یتذکرون تاکہ لوگ سمجھیں اور خوب کریں پھر جو اس پر بھی نہ سمجھے تو یہ سمجھو کہ اس سے خدا ہی سمجھے گا وہ ازلی بدبخت ہے۔ اور جبکہ یہ بیان کیا کہ قرآن میں ایسے ایسے نفیس بیانات ہیں تو ضرور ہوا کہ کچھ اوصاف قرآن مجید کے بھی بیان کئے جاویں۔ فقال قرآنًا عربیًا کہ یہ کتاب قرآن ہے، یعنی پڑھا جاتا ہے۔ طبائعِ بشریہ سلیمہ اس کی تلاوت سے لذت اٹھاتے ہیں اور عجب لطف پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو اس کے معنی بھی نہیں سمجھتے وہ بھی ایک کیفیت پاتے ہیں، اس میں اشارہ ہے کہ قیامت تک یہ کتاب لوگوں کی زبان پر ہوگی، سو ایسا ہی ہے۔ برخلاف اور ادیان اور ان کی کتابوں کے۔ دوسری صفت یہ کہ عربیًا عرب کی شیریں اور نہایت فصیح بول چال میں اتارا گیا ہے، کسی اور ملک کی سخت اور پیچیدہ زبان نہیں جو زبان پر ثقیل ہو۔ اگرچہ ہر ملک کے لوگ اپنی زبان پر قادر ہوتے ہیں اور اسی کے کلمات ان پر سہل ہوتے ہیں، مگر اس سے قطع نظر فی نفسہٖ بھی زبانوں میں تفاوت ہے کہ کوئی نہایت سلیس اور شیریں اور سہل الوصول ہوتی ہے اور کوئی لٹھہ یا سنگ خارا۔ تیسری صفت غیر ذی عوج کہ قرآن میں کوئی کجی نہیں کوئی مضمون اور کوئی مطلب ایسا نہیں کہ جس سے طبیعت سلیمہ انکار کرے اور اس کو مستبعد جانے اور نہ الفاظ و عبارت میں کوئی کجی ہے۔ کتاب الٰہی کے لیے یہ دونوں باتیں پر ضرور ہیں اور انہیں لحاظ سے کلام اپنے قائل کی شان بتایا کرتا ہے۔ لعلہم یتقون یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ لوگ خدا سے ڈریں، تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کریں۔ پہلے یتذکرون فرمایا تھا کہ سمجھنے کے بعد تقویٰ حاصل ہوا کرتا ہے۔ منکرین پر آنے والی بلائوں کے بیان کرنے کے بعد مناسب ہوا کہ کچھ ان کے طریقے کی بھی برائی بیان کرے کہ جس کے سبب ان پر یہ بلائیں دنیا و آخرت میں آنے والی ہیں۔ فقال ضرب اللہ مثلاً رجلا فیہ شرکاء متشاکسون ورجلاً سلما لرجلالخ کہ اللہ تعالیٰ تم سے ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص کے تو چند باہمی ضدی اور مساوی شریک ہیں، ان میں سے اگر ایک کسی کام کو کہتا ہے تو دوسرا اس کے برخلاف حکم دیتا ہے یا ایک اس کے لیے کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو دوسرا روک لیتا ہے اور ایک شخص ایک ہی کا ہے، یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ پہلا بڑی حیرانی و سرگردانی میں ہے، دوسرا نہیں، یہی حال مشرک کا ہے کہ جو کئی معبودوں کا بندہ بنا ہوا ہے اور موحد ایک ہی معبود کو مانتا ہے، یعنی اللہ کو۔ یہ شرک اور مشرکوں کی برائی میں مثال بیان ہوئی ہے۔ الحمد اللہ جب اور کوئی معبود نہیں تو سب انعامات و افضال جو بندے پر ہیں، ایک ہی شخص کی طرف سے ہیں، یعنی اللہ کی طرف سے، پس جس کے انعام و نعماء ہیں وہی حمدو ستائش کا مستحق ہے اور کوئی نہیں پس اسی کی حمد اور اسی کا شکر کرنا چاہیے۔ بل اکثرھم لایعلمون لیکن اکثر وہ مشرک اس بات کو جانتے نہیں۔ اور ممکن ہے کہ جس طرح مطالب ثابت کرنے کے بعد کلمات حمدوثناء مستدل زبان پر اظہار مسرت کے لیے اور دشمنوں پر فتح یابی ظاہر کرنے کے لیے لایا کرتا ہے۔ اس طرح الحمدللہ یہاں آیا ہو۔ ان بیانات کو تمام کرکے اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو تسلی اور اطمینان دیتا ہے۔ فقال انک میت و انہم میتون کہ دنیا چند روزہ ہے، ایک روز اے نبی علیک السلام تجھے بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔ مر کر خدا تعالیٰ کے پاس جانا ہے۔ ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون پھر تم وہاں اللہ کے پاس جھگڑو گے۔ حق و باطل وہاں ظاہر ہوجاوے گا، گو اب دنیا میں یہ انکار کرتے ہیں اور دلائل حقہ میں غور نہیں کرتے، نہ کریں مرنے کے بعد سب حال معلوم ہوجاوے گا۔ آنحضرت ﷺ کی نسبت جو مرنے کا لفظ اطلاق ہوا حالانکہ آپ شہیدوں سے رتبہ میں کہیں بڑھ کر ہیں اور شہیدوں کی نسبت فرمایا تھا۔ ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ اموا تاکہ ان کو مردہ نہ سمجھ بل احیاء بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزی کھایا کرتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں کچھ تعارض نہیں کس لیے کہ وہ حیات اور ہے جس کو حیات ابدی کہنا چاہیے اور یہ موت عرفی ہے۔ جسم سے روح کی مفارقت، اس مسئلہ کی ہم اس آیت کی تفسیر میں تشریح کرچکے ہیں۔ 1 ؎ اس جگہ سے عذاب آیا جس کو جانتے نہ تھے۔
Top