Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 41
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ۠   ۧ
اِنَّآ اَنْزَلْنَا : بیشک ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے بِالْحَقِّ ۚ : حق کے ساتھ فَمَنِ : پس جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَلِنَفْسِهٖ ۚ : تو اپنی ذات کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوتا ہے عَلَيْهَا ۚ : اپنے لیے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : آپ عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : نگہبان
ہم نے آپ پر لوگوں کے لیے برحق کتاب نازل کی ہے۔ پھر جو کوئی راہ پر آیا تو اپنے بھلے کے لیے اور جو کوئی گمراہ ہوا تو وہ صرف اپنے خراب ہونے کے لیے گمراہ ہوتا ہے۔ اے رسول ! آپ کچھ ان کے ذمہ دار نہیں۔
ترکیب : للناس متعلق بانزلنا بالحق حال من الفاعل او المفعول بہ ای متلبسًا بالحق فمن شرطیۃ و جو ابہ فلنفسہ و من موصولۃ مبتدء فانما یضل الجملۃ خبر و ما انت جملۃ مستانفۃ ویمکن ان یکون حالامن فاعل یضل۔ تفسیر : پچھلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے مشرکین کے مذہب کو کبھی تو دلائلِ دینیات سے باطل کیا کبھی امثال بیان کرکے اس کی خرابی ظاہر فرمائی اور کبھی دنیا و آخرت میں بلائیں اور عذاب کی سزا سے ڈرایا مگر اس پر بھی وہ کور باطن نہ مانتے تھے اور نبی کو ہمدردی کا جوش جو ان کو جہنم میں گرتے دیکھتا تھا اور آپ کو سخت رنج ہوتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ اس آیت میں آپ کو اطمینان دلاتا ہے۔ فقال انا انزلنا الخ کہ ہم نے اے نبی ! آپ پر لوگوں کی رہنمائی کے لیے دنیا میں کتاب نازل کردی ہے۔ یعنی قرآن مجید جو سعادت و شقاوت بیان کرنے میں صاف صاف ہے اور جمیع ضروریات کے لیے دستور العملِ آسمانی ہے اور قرآن بھی کیسا نازل کیا۔ بالحق سچائی اور خوبی کے ساتھ ہر عقلمند غور کرکے کہہ سکتا ہے کہ یہ آسمانی کتاب ہے اور تمام اگلے نوشتوں کا لب لباب ہے، اب اس کے بعد جو کوئی رستے پر آوے اور نیک روی اختیار کرے تو اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے اور جو کوئی نہ مانے گمراہی اور کجروی اختیار کرے تو اپنے لیے آپ برباد ہوگا۔ وما انت علیہم بوکیل اور اے نبی ! آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ سو آپ بخوبی کرچکے ہیں اور کررہے ہیں، اسی قسم کے مضامین اور کئی جگہ قرآن مجید میں آئے ہیں۔ فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا۔ وقال لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین۔ وقال فلا تذھب نفسک علیہم حسراتٍ ۔ فائدہ : بعض مفسرین کہتے ہیں۔ یہ آیت منسوخ ہے، آیت سیف سے کیونکہ آیت سیف میں اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ جب تک لوگ توحید و رسالت کا اقرار نہ کریں یعنی دنیا میں آسمانی سلطنت قائم کرلیں، تلوار سے کام لیں یعنی حقوق الٰہی کا مطالبہ بالجبر کریں، مگر تحقیق یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں، پھر خواہ مخواہ نسخ کا قائل ہونا ایک بیکار خیال ہے، کس لیے کہ آیت سیف میں قتال کا حکم بجائے خود ہے اور یہاں اس کی ممانعت نہیں، صرف آپ کی تسلی ہے اور ان کی بدبختی کا اظہار ہے۔ پہلے آیا تھا ومن یضلل اللہ فمالہ من مضل جس سے ثابت ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اور یہاں آیا ہے جو کوئی آپ گمراہ ہوتا ہے، اس کا جواب ہم کئی جگہ مفصلاً دے چکے ہیں کہ اللہ کی طرف ہدایت و ضلالت کی نسبت کرنا باعتبار حکم ازلی و نوشتہ قضاء و قدر کے ہے اور بندے کی طرف اس کے کسب اور اسباب ہدایت و ضلالت کے عمل میں لانے کی وجہ سے اور اسی طرح ہدایت و ضلالت کبھی اس کے اسباب کی طرف بھی نسبت کی جاتی ہے، کہتے ہیں قرآن یا نبی یا فلاں عالم نے ہدایت دی شیطان یا فلاں ملحد و کافر نے گمراہ کردیا۔
Top