Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 5
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ۚ یُكَوِّرُ الَّیْلَ عَلَى النَّهَارِ وَ یُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اَلَا هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ ۚ : حق (درست تدبیر کے) ساتھ يُكَوِّرُ : وہ لپیٹتا ہے الَّيْلَ : رات عَلَي النَّهَارِ : دن پر وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ : اور دن کو لپیٹتا ہے عَلَي الَّيْلِ : رات پر وَسَخَّرَ : اور اس نے مسخر کیا الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ ۭ : اور چاند كُلٌّ يَّجْرِيْ : ہر ایک چلتا ہے لِاَجَلٍ : ایک مدت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اَلَا : یاد رکھو هُوَ الْعَزِيْزُ : وہ غالب الْغَفَّارُ : بخشنے والا
ترکیب : ان یتخذ مفعول ارا دلا صطفٰی جواب الشرط مایشاء مفعول لا صطفٰی مما یخلق حال سبحانہ جملہ معترضہ بالحق حال من فاعل خلق۔ تفسیر : لو اراد اللہ ان آیات میں خدا تعالیٰ اس زلفی کا رد کرتا ہے۔ کفار و مشرکین جو غیر اللہ کو پوجتے تھے تو ان کو وسیلہ جانتے تھے اور وجہ وسیلہ ہونے کی یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے معبود خدا کے بیٹے ہیں اور باپ بیٹے میں بڑا رابطہ ہوتا ہے۔ بیٹا باپ سے کہہ کر ہماری حاجتیں روا کروا دیتا ہے۔ مکہ کے مشرک فرشتوں کو پوجتے اور ان کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، اسی طرح جنوں کو بھی اور رومن کیتھولک عیسائی بلکہ آج کل کے پر اٹسٹنٹ بھی حضرت عیسیٰ مسیح علیہ وعلی نبینا الصلوٰۃ والسلام کو ایک دوسرے کا خاوند اور بیوی اور اولاد بناتے بناتے خدا تعالیٰ سے نسب نامہ ملادیتے تھے۔ ہنود میں بھی اس کے قریب قریب خیالات فاسدہ ہیں اور پہلے بھی تھے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ رد کرتا ہے کہ اگر اللہ کو بیٹا ہی بنانا ہوتا تو وہ اپنی مخلوق میں سے عمدہ اور بہتر ہی کو نہ پسند کرلیتا، تمہارے معبودوں میں کیا بات ہے۔ سبحانہ لیکن وہ ان باتوں سے پاک ہے، وہ اکیلا ہے زبردست ہے۔ بیٹا ہو تو اس کے ساتھ جنس قریب یا بعید یا نوع میں شریک ہو اور بیٹے کا محتاج سمجھا جاوے حالانکہ اس کے ساتھ کسی کو کسی بات میں بھی شرکت نہیں، نہ اس کو کسی کی کسی بات میں حاجت ہے۔ خلق السمٰوٰت آسمان و زمین چاند اور سورج اور سب ستارے اور جملہ مخلوقات اس کی پیدا کی ہوئی ہے اور تمام عالم میں اسی کا ید قدرت تصرفات کرتا ہے۔ وہی رات دن کی الٹی پلٹی کیا کرتا ہے۔ ہر ایک ستارہ اسی کے حکم کا پابند، اسی اندازہ سے حرکت کرتا ہے کہ جس پر اس نے اس کو معین کردیا ہے۔ وہی زبردست ہے، وہی گناہ معاف کرتا ہے، یعنی اس کے تمام کاروبار اسی کے ہاتھ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ بیٹا تو وہ چاہتا ہے کہ جو پیری و ضعف میں اس کو کار آمد یا اپنے بعد وارث سمجھتا ہو، اللہ ان سب باتوں سے مبرا ہے۔ اس کے بعد اپنی قدرت کاملہ پر اور اس بات پر کہ توالدو تناسل کا سلسلہ تم انسانوں اور حیوانات میں ہے اور وہ بھی ہمارے حکم سے جاری ہے نہ خدا تعالیٰ میں۔ فقال خلقکم من نفس الخ کہ تم سب کو ایک شخص یعنی آدم سے بنایا اور اسی سے اس کا جوڑا یعنی بیوی بھی بنائی اور حیوانات میں سے بھی تمہارے لیے بھیڑ ‘ بکری اونٹ، گائے کے آٹھ جوڑے نر و مادہ پیدا کئے اور تمہاری شکلیں تمہاری مائوں کے پیٹوں میں بناتا ہے۔ تین اندھیریوں میں ایک پیٹ کی دوسری رحم کی تیسری جھلی کی جس کو مشیمہ کہتے ہیں (مجاہد و عکرمہ) پس تمہارا معبود تو یہ ہے کہ اسی کی بادشاہی ہے، اس کو چھوڑ کر تم کہاں بہکے جاتے ہو۔
Top