Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہو اے جاہلو ! کیا مجھے اللہ کے سوا اور کی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو،
ترکیب : الاستفہام لانکار و الفاء للعطف علی مقدر افغیر اللہ منصوب اعبدو تامرونی اعتراض و معناہ افغیر اللہ اعبد بامرکم۔ ویمکن ان یکون منصوبابتا مرونی و اعبد بدلا منہ والتقدیر قل افتامرونی بعبادۃ غیر اللہ ھذا من بدل الاشتمال و من باب امر تک الخیر ویجوزان یکون منصوبا بفعل محذوف ای افتلزمونی غیر اللہ و فسرہ مابعدہ۔ ولقد اللام دالۃ علی قسم مقدر لئن جواب القسم و ھذا اللام ایضاد الۃ علی قسم لیحبطن ولتکونن وہاتان اللامان واقعۃ فی جواب القسم الثانی والثانی جو ابہ جواب الاول و جواب الشرط محذوف لد لالہ جواب القسم علیہ والارض مبتدء و قبضتہ الخبر و ان یکون خبر اثانیا۔ تفسیر : دلائلِ توحید بیان کرنے کے بعد بھی جب وہ ہٹ دھرم اپنی کج بحثی سے باز نہ آئے اور بت پرستی کو ترجیح دینے لگے تو اب اور طرح سے آنحضرت ﷺ کو کلام کرنے کا حکم دیا۔ فقال قل افغیر اللہ تامرونی الخ کہ اے نادانو کیا تم مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کا حکم کرتے ہو۔ یعنی ایسا ہرگز نہ ہوگا اور پھر اس حکم کو مؤکد کرتا ہے۔ ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک الخ کہ اے محمد ﷺ تیری طرف اور تجھ سے پہلے انبیاء کی طرف ہم یہ حکم بھیج چکے ہیں کہ اگر تو اے محمد ﷺ بالفرض یا تجھ سے پہلے انبیاء فرضاً شرک کریں تو ان کے نیک کام اکارت ہوجائیں اور بڑی بربادی میں پڑیں۔ یہ کلام جلالی اور شاہنشاہی رعب کے قاعدہ پر ہے۔ آنحضرت ﷺ اور اگلے انبیاء سے شرک سرزد ہونا محال تھا، کیونکہ انبیاء معصوم ہیں، مگر مخاطب کے سنانے کو ایسا پرزور حکم سنادیا کہ یہ مذموم کام کسی کو بھی معاف نہیں۔ بل اللہ فاعبدوکن من الشاکرین بلکہ خاص اللہ ہی کی عبادت کرو اور تمام نعماء اسی کی طرف سے سمجھ کر شکر کیا کرو۔ وماقدرواللہ حق قدرہاب پھر بندوں کی ناسپاسی کا شکوہ کرتا ہے کہ افسوس انہوں نے جیسا کہ اللہ کی قدرومنزلت ‘ عزت و عظمت کرنی چاہیے تھی ویسی نہ کی کہ اس کے سوا اس کی مخلوق کو بھی اس کے ساتھ ملانے اور نافع اور ضار سمجھنے لگے اور نالائق اوصاف سے اس کو متصف بتانے لگے۔ حقیقت میں اللہ کی قدردانی جیسا کہ چاہیے تھی، ہم بندوں سے نہ ہوسکی۔ سینکڑوں راحتوں اور نعمتوں پر ذرا بھی کوئی تکلیف پیش آتی ہے تو کلمات شکوے کے منہ پر آجاتے ہیں اور ہم اپنی اوقات عزیز کو اس کی یاد سے غافل ہو کر دنیائے فانی اور خواہش نفسانی کے حاصل کرنے میں جوانی جو فانی ہے، کس طرح سے صرف کررہے ہیں۔ یہ پوری قدردانی صاحبان خدا کا کام ہے۔ اس کے بعد اپنی عظمت و جلال کبریائی ظاہر فرماتا ہے۔ والارض جمیعًا قبضتہ الخ کہ قیامت کے روز تمام زمین اس کے قبضہ قدرت میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ معتزلہ آیت کے یہ معنی لیتے ہیں کہ قبضہ سے مراد تصرف ہے نہ مٹھی میں ہونا اور دائیں ہاتھ میں آسمانوں کے لپٹنے سے مراد اس کی قدرت میں ہونا۔ اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ ید اور یمین کے حقیقی معنی یہاں مراد نہیں ہوسکتے، کس لیے کہ وہ اعضائِ جسمانی سے پاک ہے، پس اس کے الفاظ پر ایمان ہے اور ان کی حقیقت وہی جانتا ہے جو یمین اور قبضہ اس کی ذات کے لائق ہے نہ یہ کہ جو جسمانیت کے لائق ہو اور تائید کرتی ہے، اس کی وہ حدیث کہ جس کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ زمین کو ایک مٹھی میں لے لے گا اور آسمان کو دائیں ہاتھ میں اور کہے گا کہاں گئے جبار و متکبر کہاں گئے زمین کے بادشاہ، میں بادشاہ ہوں، مطلب یہ کہ اس روز قدرت کا اظہار کرے گا۔
Top