Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 133
اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِیْرًا
اِنْ يَّشَاْ : اگر وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے اَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو وَيَاْتِ : اور لے آئے بِاٰخَرِيْنَ : دوسروں کو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي ذٰلِكَ : اس پر قَدِيْرًا : قادر
لوگو اگر خدا چاہے تو تم کو سمیٹ لے جائے اور دوسروں 1 ؎ کو لے آئے اور اللہ اس پر قادر (بھی) ہے
1 ؎ عربوں میں جب دولت و سلطنت کے سبب وہ بات نہ رہی تو ترکوں کو اسلام کا حامی کھڑا کردیا اور جانے اب کس قوم کو حامی بناتا ہے۔ 12 منہ سوم۔ ان یشاء یذھبکم ایہا الناس ویات باخرین کے پیشتر وللّٰہ ما فی السموات وما فی الارض کو ذکرکے شریعت سے انحراف کے بد نتیجہ کو مدلل کرتا ہے اور جب کہ ایک دلیل چند مدلولات پر دلالت کرے تو بہ نسبت اس کے اس کو ایک بار ذکر کیا جاوے۔ یہ بہت خوبی رکھتا ہے کہ مکرر لایا جاوے۔ ایک مدلول کے لئے ایک بار وللّٰہ مافی السموات وما فی الارض کو ذکر کیا۔ پھر دوسرے مدلول کے لئے اسی کو ذکر کیا۔ پھر تیسرے مدلول کے لئے اسی کلمہ کا اعادہ فرما کر کلام کو حسن و خوبی میں یکتا کردیا۔ کس لئے کہ جب ایک بار یہ کلمہ ذکر کیا گیا اور اس سے ایک مطلب یعنی صفت باری تعالیٰ مخاطب کے ذہن میں آئی اور پھر اسی کلمہ سے دوسرے مقام پر دوسری صفت اور تیسرے مقام پر تیسری صفت ذہن نشین ہوگئی تو ذہن میں یہ بات بھی پیدا ہوگی کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنا سینکڑوں اسرار جلیلہ اور مطالب شریفہ پر دلالت کرتا ہے۔ اگر کوئی اس کی ذات وصفات کے لئے دلائل ڈھونڈے تو گویا یہ ان کے لئے ایک بےنہایت خزانہ ہے اور جبکہ وہ یہ جانے گا تو خواہ مخواہ اس میں غور و فکر کرے گا جس سے مخلوق سے منہ پھیر کر خالق کی طرف مشغول ہونا پایا جاوے گا اور کتب سماویہ سے اصل غرض بھی یہی ہے۔ واضح ہو کہ قانون شریعت پر عمل کرنے کی تاکید کے لئے تین باتیں نہایت مناسب ہیں۔ (1) اپنی ذات کا استغناء کہ اس میں ہمارا فائدہ نہیں بلکہ تمہارا ہے۔ (2) عدول حکمی کا بد ثمرہ (3) عمل کرنے کا نیک نتیجہ۔ سو اول بات کو وکان اللّٰہ غنیا حمیدا میں دوسرے کو ان یشا یذھبکم الخ میں تیسرے کو فعند اللّٰہ ثواب الخ میں بیان فرمایا۔
Top