Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 138
بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَاۙ
بَشِّرِ : خوشخبری دیں الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) بِاَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا اَلِيْمَۨا : دردناک عذاب
(اے نبی ! ) منافقوں کو عذاب الیم کا مژدہ سنا دیجئے
ترکیب : بان کا عذابا الیما اسم لہم خبر مجموعہ متعلق ہے بشر سے ‘ الذین صفت ہے المنافقین کی ‘ ان مخففہ ہے اس کا اسم محذوف ای انہ ‘ اذا سمعتم فعل بافاعل آیت اللّٰہ مفعول یکفر بہا جملہ حال ہے آیات اللّٰہ سے یستہزا بہا اس پر معطوف مجموعہ شرط ‘ فلا تقعدوا معہم جواب مجموعہ خبر ان اپنے اسم و خبر سے مل کر مفعول ہو انزل کا اذا بلغا ہے کیونکہ ان کے اسم کم اور خبر مثلہم میں واقع ہے اور اسی لئے اس کے بعد فعل نہیں آیا۔ نستخوذ برخلاف قیاس مستعمل تھا۔ اسی طرح پر آیا اور قیاس نستخذ ہے۔ تفسیر : یہ بھی آیت سابق کا تتمہ ہے کہ ایمان لا کر اس پر ثابت قدم رہنا چاہیے نہ کہ کبھی ایمان لے آیا۔ پھر کسی غرض سے کافر ہوگیا۔ پھر جو کچھ مصلحت معلوم ہوئی مسلمانوں میں مل گیا۔ پھر کسی غرض سے کافر ہوگیا اور پھر کفر میں ترقی کرتا گیا۔ ان کی سزا فرماتا ہے کہ خدا ان کو معاف نہیں کرے گا اور نہ ان کو راہ حق کی ہدایت کرے گا۔ مفسرین کے اس آیت میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ان الذین آمنوا ثم کفروا الخ سے یہود کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اول بار تورات اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ پھر چند مدت کے بعد ملک کنعان میں غیر قوموں کی صحبت سے بت پرستی اور فسق وفجور میں مبتلا ہوگئے۔ پھر دائود اور سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں ایمان لائے۔ بت پرستی چھوڑی۔ دین پر قائم ہوئے۔ پھر عزیر (علیہ السلام) کے بعد سے لے کر مسیح (علیہ السلام) تک کفر میں پڑے رہے۔ پھر حضرت محمد ﷺ کا انکار کرکے اور بھی زیادہ کفر میں ترقی کر گئے۔ بعض کہتے ہیں اس سے منافقین کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اول ایمان لائے ٗ پھر دل میں نفاق پیدا کرکے کافر ہوگئے۔ پھر جہاں شوکت اسلام دیکھی ایمان لے آئے۔ پھر جب کوئی شکست یا تکلیف دیکھی پھرگئے۔ میں کہتا ہوں اس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کے دل پر نور ایمان کی تجلی نہیں پڑی۔ ایمان اور کفر کو انہوں نے ایک ہلکی سی بات سمجھ رکھی ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر ہوگئے اور ہنوز یقین کا آفتاب ان کے دل پر پرتو افگن نہیں ہوا۔ وہ ظلمات شکوک میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کبھی ایمان اور کبھی کفر میں پڑگئے خواہ یہود ہوں خواہ منافق یا کوئی اور کہ جس کے دل میں ایمان کی وقعت نہ ہو اور وہ ادنیٰ سبب سے ایمان سے برگشتہ ہوجائے۔ لم یکن اللّٰہ لیغفر لہم اگر کوئی کہے کہ بغیر توبہ کے تو کوئی کفر بھی معاف نہیں ہوتا خواہ ایمان ملا کر کفر اختیار کرے یا نہ کرے پھر اس قید کی ضرورت کیا ہے اور توبہ کے بعد تو شرع میں ہر ایک قسم کا کفر معاف ہے خواہ ہزار بار مرتد ہو کر اسلام لائے۔ ایمان مقبول ہوگا ٗ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وہ کفر مراد ہے جس سے توبہ نہ ہو اور ان لوگوں سے وہی لوگ معین مراد ہیں کہ جو شقی ازلی ہیں جن کا علم الٰہی میں بغیر توبہ کے مرنا لکھا ہے اور ان کا یہ ذکر اس لئے ہے کہ ایسے لوگ کہ جو جلدی سے کفر اور ایمان اختیار کرلیتے ہیں ان کے نزدیک ایمان کی چنداں وقعت و عظمت نہیں ہوتی اور ایسے شخص غالباً کفر ہی کی حالت میں مرتے بھی ہیں۔ بشر المنافقین الخ اس میں منافقین کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو دنیا کے مقابلہ دین کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے۔ کبھی کر سٹان کبھی مسلمان۔ الذین یتخذون الکافرین اولیاء الخ میں ان منافقوں کا شیوہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کفار و مشرکین کا جاہ و حشم دیکھ کر ان سے جا ملتے ہیں اور ان کو اس لئے یار بناتے ہیں کہ ہم کو عزت و شوکت حاصل ہوگی۔ مدینہ کے منافق ایسا کیا کرتے تھے۔ یہود کے پاس جا کر اسلام سے نفرت اور اس پر تمسخر کرتے تھے۔ جیسا کہ آگے آتا ہے اور اس سے مقصد یہ تھا کہ ان باتوں سے یہ مخالفین ہم کو اپنا سچا دوست سمجھ کر ہماری عزت کیا کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان العزۃ للّٰہ جمیعا کہ عزت تو خدا کے ہی ہاتھ ہے جس کو وہ ذلیل کرنا چاہتا ہے کوئی بھی اس کو عزت نہیں دے سکتا۔ چناچہ ایسے لوگ ہمیشہ ان کی نظروں میں بھی ذلیل و حقیر ہی رہتے ہیں اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جن کے ہاں یہ عزت تلاش کر رہے ہیں ان کو بھی ذلت ہوجائے گی اللہ اور اس کے مطیعوں کے لئے عزت برقرار رہے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ مخالفین کی شوکت خاک میں مل گئی۔ وقد نزل علیکم مکہ میں بھی ہجرت سے پہلے مشرکین اپنی مجلسوں میں قرآن کی نسبت کفر بکتے اور ہنسی کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کو اس بارے میں وہاں جانے کی بابت یہ حکم آیا تھا۔ واذا رایت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض عنہم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ کہ تم وہاں سے اٹھ کر کھڑے ہوا کرو۔ پھر جب مسلمان اور آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو یہاں کے احبار نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا (اور یہ بےدینوں کا قدیم دستور ہے کہ وہ انبیاء اور ان کی باتوں پر قہقہہ اڑایا کرتے ہیں) ۔ اس پر خدا تعالیٰ منافقوں سے جو ان کی خوشامد کے لئے اس مضحکہ میں شریک ہوتے تھے یہ فرماتا ہے کہ ہم پہلے بھی اس بارے میں حکم دے چکے ہیں کہ جہاں کہیں خدا کی آیات پر ہنسی ہوتے دیکھو تو وہاں سے اٹھ جائو ورنہ تم بھی ان کے ساتھ کفر میں شریک ہو مگر جو بےبسی سے اٹھ نہ سکے تو وہ معذور ہے مگر دل میں ناراض ہونا شرط ہے۔ الذین یتربصون بکم یہ ان منافقین کا دوسرا حال ہے کہ جب مسلمانوں کو فتح اور کامیابی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے یعنی تھے۔ ہمیں بھی اس میں سے حصہ دو اور اگر کافروں کو کوئی دنیاوی کامیابی یا اسلام پر غلبہ پانے کا موقع ملتا ہے یعنی جب وہ کامیاب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھوہم تم پر قابو پاسکتے ہیں مگر پھر بھی ہم نے تمہاری مدد کرکے مسلمانوں کو تم سے روک دیا سو اس میں ہم کو بھی شریک کرو یعنی دونوں سے ملے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ ہم اس بات کا قیامت میں فیصلہ کردیں گے اور آیندہ وعدہ فرماتا ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر خدا کبھی سبیل یعنی غلبہ کی حجت اور فتح میں کوئی رستہ نہ نکالے گا (بشرطیکہ مسلمان اسلام پر قائم رہیں)
Top