Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 155
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ كُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَیْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۪
فَبِمَا : بسبب نَقْضِهِمْ : ان کا توڑنا مِّيْثَاقَهُمْ : اپنا عہد و پیمان وَكُفْرِهِمْ : اور ان کا انکار کرنا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات وَقَتْلِهِمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبیوں (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل (جمع) غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ طَبَعَ اللّٰهُ : مہر کردی اللہ نے عَلَيْهَا : ان پر بِكُفْرِهِمْ : ان کفر کے سبب فَلَا يُؤْمِنُوْنَ : سو وہ ایمان نہیں لاتے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : کم
پھر ان کی عہد شکنی اور آیات الٰہی کے انکار کرنے سے اور ناحق انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے (ان پر قہر نازل کیا) اور اس قول سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں (غلاف نہیں) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی تھی۔ اس لئے وہ کمترہی ایمان لاتے ہیں
(3) وقتلہم الاانبیاء بغیر حق بنی اسرائیل میں جب بت پرستی اور بدکاری نے راج پایا اور سینکڑوں برس یہی حالت رہی کہ کبھی کسی نبی اور نیک بادشاہ کی نصیحت اور کوشش سے درستی پر آگئے پھر چند روز بعد انبیاء کو ناحق قتل کرکے پھر ویسے ہی سرکش ہوگئے۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جب سلطنت بنی اسرائیل کے دو ٹکڑے ہوگئے اور ان میں سے ایک سلطنت جس کو اسرائیل کی سلطنت کہا جاتا تھا اس کے اکثر بادشاہ سخت بےایمان اور بت پرست بدکار گذرے ہیں۔ انہیں ایام میں بہت انبیاء ان کے ہاتھ سے ناحق قتل ہوئے ہیں اور اخیر میں حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہ السلام) کو ناحق قتل کیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی اپنے زعم میں دار پر کھینچا۔ (4) وقولہم قلوبنا غلف قفّال کہتے ہیں غلف اصل میں بتحریک لام جمع غلاف ہے تخفیف کے لیے ساکن کردیا جیسا کہ کتب رسل بسکون تاوسین اس تقدیر پر یہ بھی معنی ہوں گے کہ یہودی اپنے دلوں کو علم کا غلاف یا جزدان کہتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو بہت کچھ علم حاصل ہے۔ اب ہم کو کسی کے وعظ کی کچھ ضرورت نہیں۔ چناچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) اس بدبخت قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے تھے لیکن جب بھی ان کے امام و کاہن لوگوں کو ان کے وعظ سننے سے منع کیا کرتے تھے اور ممکن ہے کہ غلف کی جمع ہو جس کے معنی غلاف میں لپٹا ہوا کیونکہ خصوصاً مدینہ کے یہود بھی کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر غلاف پڑے ہوئے ہیں۔ ہم اے محمد ﷺ آپ کی اس نصیحت کو ہرگز دل میں جگہ نہ دیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بل طبع اللّٰہ علیہا بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلا کہ ان کے دل پر یہ غلاف ولاف کچھ نہیں صرف ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہرلگا دی ہے جس کی وجہ سے ان میں ایمان نہیں جاسکتا مگر وہ قدر قلیل کہ جس کو وہ اپنے ادعا کے بموجب ایمان کہتے ہیں یا یہ قلت باعتبار قلت افراد اہل ایمان کے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان میں چونکہ کمتر لوگ ایمان لاتے ہیں اس لئے اس قوم میں کم ایمان پایا جاتا ہے اور یہ کمی اسی شامت سے ہے۔
Top