Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 55
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ١ؕ وَ كَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا
فَمِنْھُمْ : پھر ان میں سے مَّنْ اٰمَنَ : کوئی ایمان لایا بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : کوئی صَدَّ : رکا رہا عَنْهُ : اس سے وَكَفٰى : اور کافی بِجَهَنَّمَ : جہنم سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
پھر ان میں سے کچھ تو اس کتاب پر ایمان لے آئے اور کچھ اس سے رک گئے اور کافی ہے جہنم (ان کے) جلانے کے لئے
ترکیب : من امن مبتدا منہم خبر مقدممجموعہ جملہ پر داخل ہے۔ سوف نصلیہم جملہ خبر کلمہ شرط ‘ بدلنہم جواب والذین الخ مبتداء سند خلہم خبر لہم فیہا الخ جملہ لغت یا حال ہے۔ تفسیر : یہ اسی بیان کا تتمہ ہے کہ باوجود اس کے ہم نے خاندان ابراہیم (علیہ السلام) کو خصوصاً نسل اسحاق و اسرائیل کو کتاب یعنی ظاہر شریعت و حکمت یعنی علم اسرار اور ملک عظیم یعنی قدرت دی تھی۔ اس پر بھی ان میں سے کچھ لوگ تو خدا پرست تھے اور کچھ منکر اور مخالف رہے (جیسا کہ تاریخ بنی اسرائیل سے واضح ہوتا ہے) پھر جب ان کا اپنے ایسے انبیاء کی نسبت یہ حال تھا تو اے محمد ﷺ آپ کی نسبت انکار اور نکتہ چینی جس قدر ہو وہ اس بدبخت قوم کے حسد کے خیال سے کچھ بھی زیادہ نہیں ہم ایسے بدبختوں کو جہنم میں جلاویں گے۔ جس طرح دنیا میں آتش حسد اور عناد میں یہ نئے نئے رنگ بدلتے ہیں اسی طرح عالم آخرت میں ان کے عذاب کی صورت ہوگی کہ جب آگ سے ایک جلد جل جاوے گی تو دوسری جلد یعنی چمڑی اور پیدا ہوجاوے گی۔ اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ (اگر وہ جہنم میں ڈالے جاویں گے۔ آخر وہ آگ ہے گھڑی دو گھڑی میں جل بھن کر مرجاویں گے۔ یہ تکلیف منقطع ہوجاوے گی) بلکہ وہ جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے اور ایک جسم کے بعد پھر وہی جلنے کے لئے مبدئِ غیب سے پیدا ہوگا تاکہ پورا عذاب چکھیں اور اس زندگی کو کوئی طبیب محال اور فانی نہ سمجھے بلکہ یہ سب ممکن اور اس کے قبضہ قدرت میں ہے کیونکہ ان اللّٰہ کان عزیز احکیما کہ وہ زبردست بھی ہے یعنی قادر مطلق ہے اور تادیر قائم رہنے کی اس کو سینکڑوں تدبیریں معلوم ہیں کیونکہ وہ حکیم ہے۔ قرآن کی عادت ہے کہ جہاں کہیں مخالفوں کے لئے عذاب وغیرہ عقوبات دنیا و آخرت بیان کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مطیع لوگوں کے لئے ثواب اور جنت کے نعماء بھی بیان ہوتے ہیں تاکہ مخاطب کے لئے کامل ترغیب و ترہیب حاصل ہو کر عذاب سے ڈر کر ثواب پر نظر کرکے دنیا اور اس کے لذائذِ فانیہ سے نفرت اور نیک روی اور عالم باقی کا شوق دل میں پیدا ہو۔ یہاں ان کے لئے کہ جو ایمان لا کر اچھے کام کرتے ہیں۔ یہ وعدہ ہے کہ ہم ان کو ایسے باغوں میں (نہ دنیا کے باغ بلکہ عالم قدس کے باغوں میں) بسا دیں گے کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ عیش ان کے لئے دنیا کے عیش کی طرح یا عالم شباب کی طرح چند روزہ نہ ہوگا بلکہ دائمی اور وہاں ان کے لئے اُنس کے لئے عالم قدس کی بیویاں بھی ہوں گی اور دراز سایہ میں رہیں گے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ جنت میں دور تک درخت متصل ہوں گے۔ اس لئے ان کا سایہ بھی دراز ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ سایہ دراز سے خدا کی مہربانی اور دائمی عنایت مراد ہے جو اس کے تقرب اور روحانی جنت کی طرف اشارہ ہے۔
Top