Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ : اطاعت کرے اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ مَعَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے ساتھ اَنْعَمَ : انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ : سے (یعنی) النَّبِيّٖنَ : انبیا وَالصِّدِّيْقِيْنَ : اور صدیق وَالشُّهَدَآءِ : اور شہدا وَالصّٰلِحِيْنَ : اور صالحین وَحَسُنَ : اور اچھے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ رَفِيْقًا : ساتھی
اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ان کے زمرہ میں ہیں کہ جن پر خدا نے کرم کیا ہے (یعنی) انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور ان کی رفاقت کیا ہی عمدہ ہے۔
ترکیب : ومن یطع شرط فاولئک جواب اور ممکن ہے کہ مبتداء او خبر ہوں من النبین بیان ہے الذین انعم اللّٰہ علیہم کا حسن کا فاعل اولئک رفیقا تمیز ذلک مبتداء الفضل خبر۔ تفسیر : اس سے پیشتر کئی ایک آیتوں میں پے در پے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی تاکید چلی آتی ہے اور ہر ایک جگہ اس اطاعت کا جداگانہ فائدہ بھی بیان ہوتا آیا ہے۔ چناچہ اس سے پہلی آیت میں چار فائدے بیان کئے تھے۔ (1) لکان خیرا لہم (2) واشد تثبیتا کہ اس سے خوب ثابت قدمی حاصل ہوتی (3) واذ لاتیناھم الآیۃ (4) ولہدینا ھم اب اس آیت میں ایک اور سر لطیفہ کی طرف ایک بڑے فائدے کے ضمن میں اشارہ کرتا ہے۔ فائدہ : یہ کہ اللہ و رسول کی اطاعت کہ جس پر انسان طوعاً و کرہاً مامور کیا جاتا ہے نہ کوئی عبث بات ہے نہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کا کچھ فائدہ ہے کہ وہ زبردستی اپنے بندوں سے نوکری یا خدمت لیتا ہے بلکہ اس میں بندوں کا ایک بڑا فائدہ ہے۔ وہ یہ کہ آدمی بسبب غلبہ قوائے بہیمیہ کے سعادتِ آخرت کے سیدھے رستہ پر نہیں چل سکتا۔ وہم اور شہوات اور غضب و طمع راہزن بن کر اس رستہ سے بہکا دیتے ہیں۔ بری بات کو اچھی بنا کر دکھا دیتے ہیں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہادی اور رسول بھیجتا ہے جو اس کو سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہیں کہ ہوشیار ادھر ادھر نہ مائل ہونا سیدھے میرے پیچھے چلے آئو۔ عقل اور الہامِ الٰہی کی مشعل ہاتھ میں لئے میرے قدم بقدم چلو جس نے اس کا کہنا مان لیا اور رسول کے فرمودہ پر عمل کیا تو وہ سیدھا منزل مقصود (عالم قدس) تک پہنچ گیا جہاں ابرار انبیاء اور صدیقین اور شہداء و صالحین رہتے ہیں وہاں نہ کچھ غم ہے نہ رنج بلکہ سرور ابدی اور حیات جاودانی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے سے یہ بات نہیں پائی جاتی کہ ان کے درجات میں کچھ تفاوت نہ ہوگا جیسا کہ امیر و وزیر و عالم رعایا ایک شہر میں ہوتے ہیں اور ہر ایک کے درجات اور مقامات جداگانہ ہوتے ہیں۔ ثوبان غلام آنحضرت ﷺ کے جو آپ پر عاشق زار تھے نے آنحضرت ﷺ سے عالم آخرت میں جدا رہنے پر رنج ظاہر کیا کہ آپ ان اعلیٰ مقامات میں ہوں گے جہاں ہمارا گذرنہ ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہاں جدائی نہ ہوگی کیونکہ اس عالم میں جبکہ ارواح ناقصہ کو ارواح صافیہ سے محبت و اتباع کا تعلق کامل ہوجاتا ہے تو اس عالم کو چھوڑ کر دوسرے عالم میں جاتی ہیں تو اس تعلق کی وجہ سے ان میں انوار تجلیات اس طرح منعکس ہوں گے کہ جس طرح باہم آمنے سامنے کے آئینوں کی روشنی صفائی کی وجہ سے ایک دوسرے میں چمکتی ہے۔ سر لطیف یہ ہے کہ ہر چیز اپنے حیز اصلی کی طرف بےخود کھینچتی ہے۔ پھر جن کا حیز طبعی عالم قدس اور صحبت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین ہے وہ ازخود ادھر ہی جاتے ہیں۔ یہ معنی ہوئے کہ اللہ اور اس کے رسول کا کہنا وہی مانتے ہیں جو ان لوگوں کے زمرہ کے ہیں۔ برخلاف بدبخت جہنمیوں کے نیک لوگ کے بہ ترتیب چار مرتبہ ہیں (1) نبی النبیین (2) نبی کی قوت نظریہ کا (جو اعلیٰ ) پر توا ہے صدیق ہوتا ہے جس کی صفت اسرار نبوت کی تصدیق کرنا ہے (3) اور قوت عملیہ کا پر توا شہید ہے جس کا کام عالم غیب کے برحق ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ خواہ قلم سے خواہ زبان سے خواہ جان سے اور اسی لئے شہید کچھ مقتول فی سبیل اللہ ہی میں آنحضرت ﷺ نے منحصر نہیں کیا بلکہ عام کردیا (4) ان کے بعد وہ ہیں کہ جن میں پہلے درجوں سے کم نبی کی دونوں قوتوں کا پر توا ہے۔ اس کو صالح کہتے ہیں۔ چونکہ یہ مقام رغبت کا تھا اس لئے مناسب تھا کہ اعلیٰ کو پہلے بیان کیا جائے۔ اس لئے اول النبیین پھر الصدیقین الخ بیان ہوا۔ اسی طرح ان درجات کی کیفیات اور اطاعت کے خلوص معلوم کرنے کے لئے وکفی باللّٰہ علیما نہایت ہی مناسب ارشاد ہے۔
Top