Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
ایمان والو ! اپنے ہتھیار پکڑ لو۔ پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر یا سب مل کر نکلا کرو
ترکیب : ثبات جمع ثبۃ بمعنی جماعت اور اس کی اصل ثبوۃ اور تصغیر ثیۃ یہ حال ہے فانفروا سے اور اسی طرح جمیعا حال ہے لمن اسم ان لیبطئن من موصولہ یا موصوفہ اس کا صلہ یا صفت منکم خبران۔ فان اصابتکم شرط قال الخ جواب اذ ظرف ہے۔ انعم کا کان لم تکن بینکم وبینہ مودّۃ جملہ معترضہ ہے لیقولن اور اس کے مفعول یلیتنی الخ میں یہاں منادی محذوف ہے یا قوم لیتنی ابو علی ایسی جگہ منادی محذوف نہیں مانتے۔ تفسیر : جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم ہو مؤکد ہوچکا اور اس کے فوائد بیان ہوچکے کہ جن پر موافق حکم اللہ اور رسول کے پابندی اور اطاعت ضروری ہے بڑی اصل الاصول بات جہاد ہے۔ اس لئے اس تمہید کے بعد اس کا حکم دیتا ہے کہ ایماندارو ہتھیار اٹھائو اور دشمن کے مقابلہ کے لئے ایک ایک جماعت ہو کر نکلو یا سب مل کر چلو۔ حذرکم واحدی کہتے ہیں حذر سے مراد ہتھیار ہیں کیونکہ یہ دشمن سے بچنے اور محفوظ رہنے کا سبب ہیں اور دراصل حذر کے معنی بچائو اور ڈر کے ہیں یعنی دشمن سے غافل نہ رہو فانفروانفر کے معنی کوچ کرنے اور تیار ہونے کے ہیں اور ایسے آمادہ جنگ لوگوں کو نفیر کہا کرتے ہیں یعنی اگر چھوٹی جماعت کہ جس کو سریہ کہتے ہیں ضرورت پڑے تو وہ نکلے اگر اور سب کی ضرورت ہو تو سب چلیں لڑائی کا انجام یا فتح و ظفر دشمن کا مال و ملک قبضہ میں آنا یا شکست پانا زخم اٹھانا ہے۔ چونکہ یہ جنگ دنیاوی بادشاہوں کی جنگ نہیں جس کی صرف فتح مندی میں فائدہ تصور ہو اور یہاں بظاہر فتح نظر نہ آوے یا مشقت و تکلیف دکھائی دے تو کنارہ کشی اور پہلو تہی کی جائے بلکہ یہ اس آسمانی سلطنت کی جنگ ہے کہ جس کے ظہور کی انبیاء (علیہم السلام) خصوصاً یسعیا اور دائود و دانیال و حضرت مسیح (علیہم السلام) خبر دیتے آئے ہیں جس جنگ کا منشاء بت پرستی کی شوکت توڑنا، راستی اور تہذیب اور توحید کے مٹانے والوں کا مٹانا ہے جس کی فتح تو فتح ہے مگر شکست میں بھی عالم آخرت کے لئے اس فوج کے سپاہیوں کو حیات ابدی اور جنات الفردوس کی دائمی پنشن ملتی ہے۔ سو اس کی شکست کو قہر اور مصیبت اور ہزیمت کو زہر سمجھ کر اس میں سستی نہ کرنا چاہیے مگر مدینہ میں کچھ لوگ منافق اور سست ایمان ایسے بھی تھے کہ جو اس جنگ کے شریک ہونے میں حیلہ جوئی اور سستی کرتے تھے اور جو کبھی اس لشکر اسلام پر مصیبت و ہزیمت پڑجاتی تھی تو خوش ہو کر یہ کہتے تھے کہ خدا نے ہم پر بڑی مہربانی کی جو ہم اس جنگ میں شریک نہ ہوئے ورنہ ہم پر بھی مصیبت پڑتی۔ وہ اپنے شریک نہ ہونے کو حالت شکست میں انعامِ الٰہی سمجھتے ہیں اور فتح و نصرت کے وقت تاسف کرکے اپنے آپ کو بالکل اجنبی سمجھ کر گویا ان میں اور اہل اسلام میں کبھی کوئی علاقہ محبت و مودت ہی نہ تھا جو اس فتح میں ان کا کوئی حصہ مقرر کرتا۔ یہ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو اس غنیمت میں شریک 1 ؎ ہو کر بڑے ہی نہال ہوتے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ اے ایماندارو تم کو ایسا سست ایمان اور حیلہ جو نہ ہونا چاہیے خصوصاً ایسے کام میں کہ جس پر تمہاری سعادت دارین موقوف ہے۔
Top