Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور (مسلمانو ! ) جب تم کو کسی طرح پر بھی سلام کیا جاوے تو تم بھی (اس کے جواب میں) اس سے بہتر طور پر سلام کردیا وہی (کلمہ) جواب میں لوٹا دو بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
ترکیب : واذا حییتم شرط تحیۃ اصلہ تحیۃ تفعلۃ من حیث ی کی حرکت نقل کرکے ح کی طرف آئی ٗ باہم ادغام ہوگیا۔ فحیوا جواب اس کی اصل حییوا تھی۔ لجمعنکم جواب ہے قسم محذوف کا پھر یہ جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اور مبتداء کی دوسری خبر بھی بن سکتا ہے فما مبتداء لکم خبر فی المنافقین متعلق ہے محذوف سے اے اصر تم فئتین اس محذوف کی خبر۔ تفسیر : فقاتل فی سبیل اللّٰہ میں جس طرح کہ شرک و فساد مٹانے کے لئے لڑنے کی تاکید تھی اسی طرح اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ یہ لڑائی صرف اپنے موقع پر ہے اور خاص حقوق الٰہی کے لئے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ تم اپنے اخلاق اور معاشرت میں درندہ پن اختیار کرو۔ گاہ بیگاہ جس کو پائو مار ڈالا کرو۔ بات پیچھے کرو لڑنے کو پہلے آمادہ ہوجائو۔ خرانٹ نہ بن جائو۔ (جیسا کہ مخالفین اسلام ٗ اسلام کی بعض وحشی قوموں سے آج کل اسلام پر عیب لگایا کرتے ہیں) بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی اور حلم و تواضع کی بھی عادت کرو یہاں تک کہ جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم بھی اس کو اسی طرح سے سلام کرو یا اس سے عمدہ اور بڑھ کر جواب دو تاکہ تم سے اس کو وحشت دور ہو اور لوگ تم سے احکامِ الٰہی اور اخلاق حمیدہ کی تعلیم پانے کا قصد کریں۔ تحیہ دعائے حیات کرنا ٗ عرب کا اسلام سے پہلے باہمی بجائے سلام علیکم کے حیاک اللہ کہنے کا دستور تھا جیسا کہ ہر ایک قوم میں ایک دستور ہے۔ چونکہ زندگی بغیر عافیت کے کوئی اچھی چیز نہیں اور لفظ سلام میں سلامتی اور عافیت دارین کی بھی دعا ہے اور نیز یہ اللہ کا بھی نام ہے اور نیز اس میں تسلیم یعنی فروتنی کی طرف بھی اشارہ ہے اور مذہب اسلام کی طرف بھی رمز ہے۔ اس لئے اس کی جگہ السلام علیکم کہنا قرار پایا خواہ السلام علیکم کہو خواہ سلام علیکم۔ اس کا اسی طرح سے رد کرنا تو وعلیکم السلام کہنا ہے اور بہتر طرح سے رد کرنا یعنی جواب دینا وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے پاس جب کفار آتے تو آپ کے اخلاق اور فروتنی سے از حد خوش ہو کر جاتے تھے۔ اسی شمشیر اخلاق نے عرب کے وحشیوں کو چند روز میں مسخر کرلیا تھا اور پھر صحابہ کا بھی یہی دستور تھا۔ کتب تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ ان اخلاق حمیدہ کی تاکید کے لئے دو باتیں ذکر فرمائیں ان اللّٰہ کان علی کل شیء حسیبا دوسری اللّٰہ لا الہ الخ اس میں سے اللّٰہ الا الہ الا ھو میں توحید اور لیجمعنکم الی یوم القیامۃ میں عدالت کی طرف اشارہ ہے اور قیامت کے برحق ہونے کی دلیل من اصدق الخ سے فرمائی۔ جنگ احد میں جبکہ عبداللہ بن ابی اپنے گروہ کو عین مقابلہ کے وقت لے کر بھاگ آیا اور مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو مدینہ میں مسلمانوں کے دو فریق ہوگئے تھے۔ ایک کہتا تھا ان کو قتل کرنا چاہیے۔ دوسرا کہتا تھا خدا ان کی اصلاح کر دے گا۔ قتل میں بدنامی ہے اس پر خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ فمالکم فی 1 ؎ المنافقین کہ تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو۔ ان پر اللہ نے ان کے اعمال کی شامت ڈال دی ہے کیا جس کو خدا نے گمراہ کیا۔ تم اس کو ہدایت کرسکتے ہو ؟ رکس اور نکس دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی الٹ دینا یعنی اسلام کی راہ راست سے الٹے کفر میں جا پڑے۔ یہ بھی اخلاقی تعلیم ہے کہ کسی کے اس کی کسی لغزش کے سبب پیچھے نہ پڑجانا چاہیے۔
Top