Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 32
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِۙ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر يَوْمَ التَّنَادِ : دن چیخ و پکار
اور اے قوم ! میں تم پر پکار کے دن سے خوف کھاتا ہوں،
تفسیر : یہ اس مومن کا ایک اور قول ہے یا قوم انی اخاف علیکم یوم التناد تناد کو جمہور نے تخفیف دال و حذف یاء کے ساتھ پڑھا ہے اور اس کی اصل تنادی ہے، باب تفاعل ہے۔ نادیٰ ینادی نداء بمعنی آواز سے مشتق ہے کہ اے قوم ! مجھے تمہاری نسبت آواز دینے کے دن سے ڈر ہے۔ اس سے مراد قیامت کا دن ہے کہ ملائکہ پکاریں گے اور اہل جنت کو ان کے مقامات کی طرف آنے کو کہیں گے یا ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارے گا، جس طرح کہ مصیبت کے وقت پکارا کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ اس سے غرض اس کی دنیا میں مصیبت اور ہزیمت کا دن ہو، جس کے آنے کی خبر اس کو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے دی تھی یا اس کو خود سنت اللہ کو دیکھ کر معلوم ہوگیا ہو کہ انبیاء سے مقابلہ کرنے والے ایک روز آسمانی بلا میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس مصیبت کے وقت اپنے یار و انصار کو پکارا کرتے ہیں، ان پر بھی وہ دن آنے والا ہے وہ کون سا دن ہے۔ یوم تولون مدبرین وہ کہ جس روز تم پیٹھ دے کر بھاگو گے اور خدا کے قہر سے تم کو کوئی نہ بچاوے گا چناچہ یہ معاملہ بحر قلزم میں غرق ہونے کے دن پیش آیا۔ نصیحت تمام کرکے یہ بھی فرمادیا۔ ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد کہ جس کو اللہ گمراہ کرتا ہے، اس کو کوئی ہدایت نہیں کرسکتا، یعنی اگر تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا اور نہ کرو گے تمہاری حالت سے معلوم ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تم کو خدا ہی نے گمراہ کردیا۔ پھر میری ہدایت کیا نفع دے سکتی ہے۔ یہ مایوسی کا کلمہ ہے۔ ولقد جاء کم یوسف من قبل الخ یہ بھی اسی مومن کا کلام ہے، بعض کہتے ہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا کہ موسیٰ کا نبی ہو کر تمہارے پاس آنا کوئی نئی بات نہیں، ان سے کئی سو برس پہلے فرعون سابق کے عہد میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) تمہارے پاس دلائل و معجزات لے کر آئے تھے، انہوں نے بھی مصریوں کو بہت کچھ سمجھایا، بت پرستی سے منع کیا مگر نہ مانا۔ آخر جب ان کا انتقال ہوگیا تو کہنے لگے کہ اب ان کے بعد خدا تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا، ان کی زندگی میں تو ان کے منکر رہے اور ان کے بعد اور آیندہ آنے والے رسولوں کے منکر ہوگئے اور سلسلہ رسالت کا ہی انقطاع کر بیٹھے۔ یہ بڑی گمراہی اور سخت سرکشی ہے اور ان پر کیا موقوف ہے۔ کذلک یضل اللہ من ھو مسرف مرتاب بلکہ ہر بےہودہ اور حد سے باہر ہونے والے اور شک کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یوں ہی گمراہ کردیا کرتا ہے۔ ان کو جو یجادلون الخ اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی سند اور دلیل کے ناحق جھگڑا کیا کرتے ہیں جو عنداللہ اور عندالمومنین بڑی نازیبا بات ہے اور اس طرح سے ان کے دلوں پر مہر بھی کردیا کرتا ہے، پھر ان کے دلوں میں حق بات نہیں جاتی، یہ ان کی سرکشی اور تکبر سے ہوتا ہے۔ اس میں قریش مکہ کی طرف اشارہ ہے کہ فرعونیوں پر کیا موقوف ہے، تمہارا بھی یہی حال ہے، پھر جو ان کا انجام ہوا تمہارا بھی ہوگا۔ گو قریش بحر قلزم میں نہ ڈوبے مگر قحط اور قتل بدر کی بلا کے بحر عمیق میں ایسے غرق کئے گئے کہ الٰہی توبہ الٰہی توبہ !
Top