Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ وہ ہے کہ جس نے تمہارے لیے چار پائے بنائے تاکہ ان میں سے کسی پر سواری کرو اور کسی کو کھائو
تفسیر : خوف دلانے کے بعد پھر وہ دلائل بیان فرماتا ہے کہ جو اللہ حکیم رحیم کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اور جن سے اس کا بندوں پر انعام و احسان ثابت ہوتا ہے۔ فقال اللہ الذی الخ کہ اللہ وہ محسن و رحیم و کریم و قادر ہے کہ جس نے تم سے بڑے زور آور جانوروں کو تمہارے بس میں کردیا کہ ان میں سے تم کسی پر سوار ہوتے ہو۔ جیسا کہ اونٹ، گھوڑا، گدھا بعض ملکوں میں بیل ہاتھی بھی یہی کام دیتے ہیں اور بعض کو تم ذبح کرکے کھاتے ہوگائے، بھیڑ، بکری وغیرہ۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ ولکم فیہا منافع اس کے علاوہ تمہارے لیے ان میں اور بھی فوائد ہیں، ان سے نفع لیتے ہو۔ دودھ، گھی فروخت کرتے ہو کھاتے پیتے ہو ہل جو تتے ہو، ان کی نسل بڑھا کر فروخت کرتے ہو، ان کی کھالوں سے فوائد اٹھاتے ہو، ان کی ہڈیوں اور سینگوں کو کام میں لاتے ہو۔ ولتبلغوا علیہا حاجۃ فی صدور کم اور نیز ان پر چڑھ کر اپنی حاجات دلی کو پورا کرتے ہو، سفر کرتے ہو، اسباب لاد کرلے جاتے ہو، دشمنوں پر چڑھائی کرتے ہو اور یہ سوار ہونا کچھ انہی پر موقوف نہیں بلکہ علیہا وعلی الفلک تحملون ان پر اور کشتیوں پر بھی سوار ہوتے ہو۔ ویریکم آیاتہ اور وہ تم کو اپنی اور بہت سی نشانیاں دکھاتا ہے۔ فای آیات اللہ تنکرون، پس کون کون سی نشانیوں کو جھٹلاؤ گے۔ افلم یسیروافی الارض یہاں سے یہ بات بتلاتا ہے کہ نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کی اس کے ہاں سخت سزا دنیا میں بھی ملا کرتی ہے۔ اگر یقین نہیں تو ملک میں پھر کر اپنے سے پہلے لوگوں کا حال کیا انہوں نے نہیں دیکھ لیا ہے کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ اور ہمارے مقابلہ میں ان کی کوئی تدبیر اور کوئی زور کارآمد نہ ہوا۔ پھر ان موجودہ لوگوں کا کیا کارآمد ہوگا، حالانکہ وہ ان سے زور آور ‘ بڑے نشان باقی چھوڑنے والے تھے۔ قلعہ اور عمارات بلند اور کنوئیں ان کی یادگار موجود ہیں۔ فلما جاء تہم رسلہم بالبینات الخ یہاں سے ان کی بربادی کے اسباب بیان فرماتا ہے کہ ان کے پاس رسول نشانیاں معجزات لے کر آئے۔ انہوں نے اپنے خیالات فاسدہ پر خوشی ظاہر کی اور نبیوں کی بات نہ مانی اور ان پر ٹھٹھا کرنے لگے۔ وحاق بہم پس ان پر وہ بلا کہ جس کے آنے کا ذکر سن کر اس پر ہنسی کرتے تھے، اُلٹ پڑی۔ فلما راوا پھر جب بلا آتی دیکھی تو دولت دنیا کا نشہ اتر گیا کہنے لگے۔ امنا باللہ وحدہ الخ کہ ہم خالص ایک اللہ پر ایمان لائے اور اپنے معبودوں کے منکر ہوگئے، مگر اس وقت کا ایمان لانا کیا فائدہ دیتا تھا، کس لیے کہ اللہ کا دستور ہمیشہ سے یوں ہی چلا آیا ہے کہ ہلاکت کے وقت کا ایمان لانا معتبر نہیں ہوتا۔ سو وہ زیاں کاربرباد ہوگئے۔ فوائد : (1) لام وجو غرض کے لیے آتا ہے۔ لترکبوا و لتبلغوا پر داخل ہوا اور باقی پر نہ داخل ہوا ‘ اس کا کیا سبب ہے ؟ صاحب کشاف نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ چارپایوں پر چڑھنا حج اور جہاد میں واجب یا مستحب ہے۔ پس یہ دونوں دینی اغراض ہیں، اس لیے ان پر لازم آیا لیکن کھانا اور منافع حاصل کرنا سو یہ حس مباحات سے ہیں، اس لیے ان پر لام نہیں داخل ہوا اور نظیر اس کی یہ آیت ہے۔ والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ دیکھو یہاں رکوب پر لام آیا زینت پر نہ آیا، یعنی رکوب مقصد اصلی ہے اور باقی فرعی ہیں۔ (2) ای ایات اللہ فرمایا مذکر کا صیغہ آیات مؤنث کے لیے آیا اور آیۃٌنہ فرمایا۔ صاحب کشاف اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہی فصیح اور مستعمل ہے۔ آیۃٌ نہیں کس لیے کہ اسمائِ غیر صفات میں جیسا کہ حمار و حمارۃ مونث اور مذکر میں تفرقہ بہت ہی کم ہوتا ہے، چہ جائیکہ ای ّکیونکہ یہ مبہم ہے۔ (3) فرحوا بما عندھم من العلم فرحوا کی ضمیر یا تو کفار کی طرف راجع ہے۔ پس ان کے اس علم سے کہ جس سے خوش وقت تھے، کیا مراد ہے ؟ یا تو ان کے وہ خیالات فاسدہ کہ جو متوارث چلے آتے تھے یا ان کی جہل پسند طبیعت اور آزادی پسند فطرت اور بےباکی نے ازخود گھڑ لیے تھے۔ جیسا کہ یہلکنا الا الدھر ولو شاء اللہ ما اشرکنا ولا آبائونا، ومن یحی العظام وھی رمیم۔ ومانعبدھم الا لیقربنا الی اللہ زلفی وغیر ذلک یعنی دہریے دہر ہی کو محی و ممیت کہتے تھے اور مشرک اپنے مذموم افعال کی صحت پر خدا کی مشیت کو دلیل بناتے تھے کہ ہمارے یہ کار برے ہوتے تو خدا ان کو نہ ہونے دیتا یا وہ قیامت کے روز زندہ ہونے کو محال سمجھتے تھے یا اپنے معبودوں کو اللہ کے تقرب کا وسیلہ جانتے تھے، ایسے ایسے ہی اقوال فاسدہ وہ انبیاء کے مقابلہ میں پیش کرکے بغلیں بجایا کرتے تھے یا ان کے علوم سے مراد فلاسفہ کے علوم ہیں۔ ریاضیات و عنصریات کے سو الٰہیات میں بھی ان کو ان کے اقوال پر بڑا زعم تھا اور آج کل بھی صدہا انسان فلسفہ حال پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ بظاہر اسلام کا ترک کرنا اپنی بدنامی اور حریصانہ کوشش دنیاوی کے منافی جان کر اسلام کا ترک کرنا تو مناسب نہیں جانتے، اس لیے قرآن کے مطالب نفیسہ کی تاویل بعید کرکے یعنی تکین ملاکر اقوال حکماء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور اس کوشش بیکار کا جملہ مسلمانوں کو ممنون منت بتاتے ہیں اور ایسی تاویلات رکیکہ کا نام انہوں نے تفسیر الکلام بافعال اللہ و بقدرت اللہ رکھا ہے۔ ان علوم فلسفیہ سے وہ انبیاء کا مقابلہ کیا کرتے تھے اور اب بھی بت پرست اپنے جاہلانہ خیالات کو قرآن مجید کے مقابلہ میں لایا کرتے ہیں یا ان کے علم سے مراد امور دنیاویہ کا علم ہے کہ اسی پر وہ شاداں وفرحاں رہتے تھے۔ انبیاء کی باتوں پر جو دنیا کی بےثباتی اور خدا کے پاس جانے کی بابت تھیں، کان بھی نہ دھرتے تھے۔ اور یا یہ ضمیر حضرات انبیاء کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں یا تو فرحت رسولوں کی مراد ہوگی کہ حضرات انبیاء ان کے انکار و جاہلانہ مکابرہ سے دل تنگ نہ ہوتے تھے بلکہ جو علوم ان کو اللہ کی طرف سے حاصل ہوئے تھے، ان پر شاداں وفرحاں تھے، اور یہ ان کے یقین کی برکت تھی۔ یا یہ معنی کہ کفار انبیاء کے علم پر جو ان کو دیا گیا تھا۔ خوش ہوتے تھے، یعنی ہنسی اور تمسخر کرتے تھے، جیسا کہ آج کل نئے تعلیم یافتہ دینی باتوں پر ہنسی کیا کرتے ہیں، مگر نتیجہ ان کا خسران و حرمان ہوا۔ برباد ہوئے۔ آخرت میں مبتلائِ عذاب ہوئے۔ الٰہی بطفیل نبی پاک ﷺ ہم کو خسارہ دارین سے پناہ میں رکھیو یہ خسران و حرمان ہمارے پاس نہ آوے۔ آمین۔
Top