Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے بیٹیاں لے لیں اور تم کو بیٹے چن کردیے
ترکیب : بنات مفعول اتخذممایخلق حال منھا، مثلاً مفعول ضرب للرحمن متعلق بہ واذا شرطیۃ ظل الجملۃ الشرط وجہہ بالرفع علی القرآۃ المشہورۃ اسم ظل مسودا خبرہ اومن فی موضع نصب تقدیرہ اتجعلون من ینشؤا قرء الجمہور بفتح الیاء و اسکان النون و قراء ابن عباس والضحاک و حفص بضم الیاء و فتح النون و تشدید الشین قال الھردی الفعل علی القرأۃ الاولی لازم و علی الثانیۃ متعدفی متعلق بمبین وغیرلایمنعہ والجملۃ حال۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا وجعلوالہ من عبادہ جزاء اب یہاں اس کی اور زیادہ تشریح کرتا ہے فقال ام اتخذ الخ کہ کیا اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے لڑکیاں پسند کیں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کئے ہیں ؟ یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں یہ غلط بات ہے کیونکہ بیٹیوں سے بیٹے بہتر ہوتے ہیں یہاں تک کہ اذابشراحد ھم الخ جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے جس کو وہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرار دیتا ہے تو غم کے مارے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور دل میں گھٹ جاتا ہے عرب بیٹیوں کا پیدا ہونا اپنی عزت کے خلاف جانتے تھے اس لیے قتل کر ڈالتے تھے اور خبر سن کر بڑا رنج ہوتا تھا پھر ایسی چیز تو آپ لے اور بیٹے تم کو دے یہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اولاد سے جو فائدہ متصور ہوتا ہے کہ وہ میدان کار زار میں کام دے اور مجالس میں سیف لسانی سے کام لے۔ یہ بھی ان سے حاصل نہیں اس بات کو اس جملہ میں بیان فرماتا ہے اومن ینشوئا الخ کہ کیا جو زیور میں اور آرائش میں پرورش پاتے ہیں (یعنی لڑکیاں) اور جھگڑوں میں گویائی سے عاجز ہیں کیونکہ عورت کی تربیت میں زیور و آرائش ہے جو مردانگی کے خلاف ہے اور شرم ولحاظ کی وجہ سے خوب بات نہیں کرسکتیں۔ وہ اس نے اپنے لیے پسند کی ہیں نہیں ہرگز نہیں۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ زنانہ تجمل و آرائش مذموم ہے۔ اس کے بعد ایک اور دلیل سے ان کو رد کرتا ہے فقال وجعلوالملائکۃ الخ کہ فرشتے اللہ کے بندے ہیں ان کو انہوں نے عورت بنا دیا جو ان کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں کیا انہوں نے ان کو پیدا ہوتے دیکھا ہے اس کی وہ شہادت دیں گے ؟ اچھا دیں ہم ان کی شہادت لکھے لیتے ہیں اور ان سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ اس کے بعد ان کفار و مشرکین کا جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور حجت میں ساکت کئے جاتے تھے ایک جواب نقل کرتا ہے جو محض جاہلانہ جواب ہے، وقالوالوشاء الرحمن کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم ان معبودوں کو نہ پوجتے اس سے ثابت ہوا کہ یہ اس کی مرضی کے موافق ہے اس کا جواب دیتا ہے مالہم بذلک من علم انہیں مشیت اور مرضی کا فرق معلوم نہیں اس قضاء و قدر اور عالم اسباب کے مسئلہ کو یہ نہیں جانتے محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں کہ اس کی مشیت ہے تو مرضی بھی ہے ام اتیناھم الخ کیا ان کے پاس اس بت پرستی کے جواز میں کوئی نوشتہ الٰہی ہے جو پہلے سے چلا آتا ہے اور جس کے یہ پابند ہیں نہیں۔ اس کے جواب میں بھی یہی کہیں گے اناوجدنا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یوں کرتے دیکھا ہے ان کے طریقہ پر ہم چلتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے وکذلک کہ یہ نئی بات نہیں ان سے پہلے بھی جہاں کہیں کوئی نبی آیا وہاں کے پیٹ بھروں نے یہی عذر کیا کہ ہم اپنے باپ دادا کے پیرو ہیں۔
Top