Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 22
بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم نے وَجَدْنَآ : پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّ اِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ : ان کے آچار پر۔ نقش قدم پر مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ ہیں۔ راہ پانے والے ہیں
بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم انہیں کے پیرو ہیں
ترکیب : قراء الجمہور قل و قریٔ قال حکایۃ لماجری بین النذروقومھم۔ ای قال کل نذیر لقومہ۔ اَہمزۃ انکار وللعطف علی المحذوف ای تتبعون ذالک۔ و جواب لو محذوف۔ الا الذی استثناء منقطع اومتصل علی ان کلمۃ مافی ممایعم لانھم کانویعبدون اللہ والاوثان اوصفۃ بمعنی غیر علی ان ماموصوفۃ ای اننی براء من الہۃ تعبدونھا غیر الذی فطرنی وجعلہا فاعلجعل الضمیر یرجع الی اللہ اوالی ابراھم وھا الی کلمۃ التوحید التی قالھا ابراھیم۔ تفسیر : یہ بقایا ہے اس گفتگو کا جو انبیائِ سابقین اور ان کی قوم میں ہوئی تھی کہ کیا جب تمہارے باپ دادا کے طریقہ سے اچھا اور ہدایت کا طریقہ ہم تمہارے پاس لاویں جب بھی تم اپنے باپ دادا کے طریقہ پر چلو گے ؟ اس کے جواب میں بھی کہہ دیا انا بما ارسلتم بہ کافرون ہم تمہاری سب باتوں کے منکر ہیں فانتقمنا منہم الخ پس ان سے بدلہ لیا ہلاک و برباد کردیا پھر دیکھوجھٹلانے والوں کا کیا بد انجام ہوا۔ تقلید کا ذکر : اس کے بعد اس تقلیدِ آبائی کے رد میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتا ہے جو مخاطبین کے جدامجد تھے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کے طریقے کو جو ناپسند تھا چھوڑ دیا پھر اگر تم کو باپ دادا کی پیروی منظور ہے تو اپنے دادا ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرو اس نے اپنے باپ اور قوم سے صاف کہہ دیا تھا کہ میں بجز اس کے کہ جس نے مجھے پیدا کیا تمہارے معبودوں میں سے کسی کو نہیں مانتا وہی مجھ کو اپنے دین کا رستہ دکھا دے گا۔ دلیل چونکہ تقلید سے بہتر ہے اس لیے جعلہا کلمۃ باقیۃ علی عقبہ کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس بات کو (اننی براء مماتعبدون الا الذی فطرنی) اس کے بعدتک خدا پرست قوموں میں قائم رکھا کیونکہ یہ کلمہ بمنزلہ لا الہ الاللہ کے ہے اور موحدین کے پیشوا ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بعد اس کلمہ کو باقی چھوڑا تاکہ لوگ شرک سے توحید کی طرف رجوع کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام و دلائلِ سماویہ کے مقابلہ میں بےسوچے سمجھے باپ دادا کی تقلید و پیروی حق کے خلاف میں کرنا مذموم ہے اور ایسی تقلید شرک و گمراہی ہے مگر ائمہ مجتہدین کے فتو وں پر چلنا (جو ادلہ اربعہ کتاب و سنت اجماع و قیاس یعنی استنباط نصوص پر مبنی ہیں) یہ سمجھ کر کہ ناسخ و منسوخ اور مائول و مفسر مشترک و غیر مشترک کی شناخت مواردنصوص کی تخصیص و تعمیم ‘ احادیث میں صحیح و ضعیف کی پہچان یہ ہم سے زیادہ تر جانتے ہیں اور اہل توحید کا جم غفیر سلف سے خلف تک ان کو ان باتوں میں پیشوا جانتا آیا ہے محاورات عرب اور ان کے رسم و رواج سے بھی یہ خوب واقف تھے باایں ہمہ اہل ورع و پرہیز گار تھے جو ایک خاص قسم کی تقلید ہے اس کو بھی اسی میں ملا کر شرک و بدعت کا حکم لگا دینا بڑی ناانصافی ہے۔ مشرکین ایک حجت یہ بھی قائم کیا کرتے تھے کہ اگر تقلیدِ آبائی اور یہ بت پرستی عند اللہ بری ہے تو سینکڑوں برسوں سے یہ لوگ دنیا میں کیوں پھلتے پھولتے آئے ہیں۔ اس کا جواب دیتا ہے بل متعت الخ کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا میں اب تک 1 ؎ پھلنے پھولنے دیا اس پر یہ پھول گئے اور اس بات کو حق اور رسول مبین کے مقابلہ میں پیش کرنے لگے اور دین حق اور رسول کو جادو کہہ دیا اور انکار کردیا۔ یہ ان کی غلطی ہے کس لیے کہ دنیا کی برومندی اس کی ربوبیت کا مقتضٰی ہے یہ کوئی دلیل ان کے برحق ہونے کی نہیں۔ 1 ؎ یعنی رسول اور قرآن کے ظہور تک یہاں تک وہ اسی میں مبتلا تھے کہ ان کے پاس رسول اور دین حق آگیا ہے اور ہم کو قاضی شوکانی اور ابن القیم اور ان کے مقلدین سے کمال تعجب ہے کہ وہ باوجود علم اس بات کے کہ کتب اصول فقہ میں مسلم ہوچکا ہے کہ نص کے مقابلہ میں قیاس مجتہدین کوئی چیز نہیں کیسی جرأت کرتے ہیں اور اہل اسلام کو مشرک قرار دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس !
Top