Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور کہنے لگے کس لیے یہ قرآن ان دونوں بستیوں کے کسی سردار پر نہ نازل کیا گیا۔
تفسیر : کفار مکہ کا آنحضرت ﷺ کی نبوت پر یہ بھی ایک بیہودہ شبہ تھا جس کو یہاں نقل کر کے جواب دیتا ہے فقال وقالوا الولانزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہ نازل ہوا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قریتین سے مراد ان کی دو شہر تھے مکہ اور طائف اور رجل عظیم یعنی بڑے عظیم شخص سے مراد وہ کہ جو بڑا مالدار ‘ صاحب شوکت وجاہ ہو۔ مکہ میں ایسا شخص جو منصب نبوت کا مستحق ‘ دنیاوی مال وجاہ کے لحاظ سے ان حمقاء کے نزدیک سمجھا گیا تھا ولید بن المغیرہ تھا اور طائف والوں میں سے عروہ بن مسعود ثقفی۔ یہ کہنا تو ان کا درست تھا کہ کسی بڑے شخص پر قرآن اترنا تھا مگر یہ ان کی حمایت تھی کہ وہ بڑائی مال وجاہ میں منحصر جانتے تھے اور ان پر کیا موقوف ہے اب بھی حمقاء میں مال وجاہ دنیاوی پر بڑائی کا انحصار ہے خصوصاً بےدینوں کے نزدیک اب اس کے دو جواب دیتا ہے : اول اھم یقسمون رحمۃ ربک الی قولہ سخریا کہ جب دنیاوی مرتبوں میں ہم نے تفاوت کردیا کہ جس کو کوئی اٹھا نہیں سکتا کوئی حاکم ہے کوئی محکوم ہے ‘ کوئی مفلس ہے کوئی زوردار ‘ جس کے سبب انتظام عالم ہو رہا ہے کیونکہ سب یکساں ہوں تو کوئی کسی کی اطاعت و خدمت کیوں کرے ؟ تو دینی تفاوت کو وہ کیونکر اٹھا سکتے ہیں ہم جس کو چاہیں ولی اور جس کو چاہیں کافر و فاسق بنا دیں۔ اور یہ بھی ہے کہ مال جو کچھ کسی کو دیا ہے ہم نے اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے پھر کسی کو مال دے کر کیا ہم نبوت دینے پر بھی مجبور کئے جاسکتے ہیں کہ خواہ مخواہ نبوت بھی اسی کو دیں۔ پس ہم مختار ہیں ہم پر کسی کا دینا نہیں آتا کہ جس کو مال و جاہ دیں خواہ اس میں نبوت کی لیاقت ہو یا نہ ہو اس کو نبوت بھی عطا کریں۔ دوم : و رحمت ربک خیر مما یجمعون یہ کہ مال وجاہ کی شرافت کو نیکی وسعادت ازلی کی شرافت سے بڑھ کر جاننا نادانی ہے۔ کس لیے کہ مال وجاہ لذات دنیا کے حاصل کرنے میں کام آتا ہے جو محض فانی ہے اور یہ سعادت ازلی لازوال دولت ہے جو باقی ہے اور جس چیز کو وہ سمیٹ رہے ہیں یعنی مال اس سے بہتر ہے۔ پس اسی دولت کا مالا مال شریف اور بڑا ہے اور تمہارے عقیدہ کے موافق بڑے آدمی کو نبوت کا مرتبہ ملنا چاہیے تو وہ بڑے شخص نہیں بلکہ محمد ﷺ بڑے ہیں اس کے بعد دنیا اور اس کے کرّوفر کی بےوقعتی بیان فرماتا ہے کہ جس پر وہ شیدا تھے اور جو ان کی آنکھوں میں بڑی چیز تھی فقال ولولاان یکون الناس امۃ واحدۃ لجعلنا لمن یکفر با لرحمان الخ کہ دنیا کی ہمارے نزدیک کیا عزت ہے ؟ صرف یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا کا تجمل دیکھ کر سب یا اکثر لوگ کفر کی طرف راغب نہ ہوجاتے تو ہم کفار کو جو رحمان کے منکر ہیں اس جہان کے بدلہ دنیا میں اس قدر دیتے کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں چاندی کی کردیتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہاں تکیہ لگا کر بیٹھنے کو تخت بھی چاندی کا کردیتے اور بہت آرائش کے سامان عطا کرتے مگر یہ سب کچھ دنیا فانی کا چند روزہ اسباب ہے اور آخرت جو ہے تو پرہیز گاروں کے لیے بہتر ہے۔ وہاں ان کے لیے اس سے زیادہ ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے اگر دنیا کی اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کی برابر بھی قدر ہوتی ہے تو کسی کافر کو سرد پانی بھی نہ دیتا۔ (رواہ الترمذی) حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ مومن کو دنیا سے اس طرح روکتا ہے کہ جیسا کوئی بیمار کو پانی سے روکتا ہے۔ (رواہ الترمذی) بیشک قیامت کے قریب کفار کو دنیا اور اس کے تجملات بکثرت دستیاب ہوں گے اور فسق و فجور میں مبتلا ہوں گے۔ یورپ کو دیکھو اسی بات کی مسلمانوں میں نہ ہونے سے نیچری کہتے ہیں کہ اسلام مٹ گیا۔
Top