Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے
ترکیب : عظیم بالجبر بدل من رجل لبیوتہم بدل باعادۃ الجارای لبیوت من کفروجمیع الضمیر فی بیوتہم و افردہ فی یکفر باعتبار معنی من ونفلھا، سقفاقرلہ الجمہوربضم السین و القاف فھی جمع سقف کر ھن ورھن وقال الفراء ھو جمع سقیف کر غیف ورغف وقیل جمع سقوف فیکون جمعاللجمع۔ وقرء بفتح السین و اسکان القاف فھو واحدفی معنی الجمع و معارج جمع معرج بفتح المیم وکسرھا۔ ابوابا و سررا (جمع سریرا) منصوبان بجعلنا ای جعلنا البیوتھم ابواباسر رالمابا لتخفیف و قری بالتشدید فعلی الاولی ان مخففہ من الثقیلۃ و علی الثانیۃ ھی النافیۃ ولمابمعنی الا۔ ترکیب : ومن شرطیۃ یعش العشوالاعراض والعدول ھذا قول الفراء والزجاج وقال الخلیل النظر الضعیف قراء الجمہوربضم الشین من عشایعشومن نصر ینصر و قریٔ بفتح الشین من عشی یعشی۔ ای من سمع یسمع۔ وسقط الواوبمن الشرطیۃ۔ قال الجوہری العشا مقصور مصدرالاعشیٰ ھومن لایبصر باللیل والمراۃ عشویٰ نقیض جو اب الشرط انکم بفتح ان علی ان ومابعدھافاعل ینفعکم ویمکن ان یکون ضمیر اللتمنی وانکم لانکم۔ ومن کان عطف علی العمی باعتبار تغائر الوصفیں۔ تفسیر : اب دنیا کا خراب نتیجہ بتاتا ہے ومن یعش کہ جب شہوات و لذات دنیا خدا کی یاد سے غافل کردیتی ہیں اور جو اس کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو اس کے لیے ایک شیطان قائم ہوجاتا ہے جو اس کا ہر کاروبار میں ساتھی رہتا ہے اور انہم لیصدونہم من السبیل الخ اور شیاطین انسان کو راہ راست سے باز رکھتے ہیں اور لطف یہ کہ انسان اپنے آپ کو راہ راست پر جانتا ہے۔ اس نشہ میں یہاں تک مبتلا رہتا ہے کہ اذاجاء نا الخ ہمارے پاس آتا ہے مر کر یا قیامت میں تب یہ نشہ اترتا ہے اور اس کی برائی ثابت ہوتی ہے تو اس سے بیزاری ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کاش تجھ میں اور مجھ میں مشرق و مغرب کا فرق ہوجاوے یعنی جس قدر مشرق سے مغرب دور ہے یہ مردود مجھ سے اتنا دور رہے ولن ینفعکم الیوم مگر آج کی بیزاری کیا فائدہ دیتی ہے جب کہ جو کچھ نہ کرنا تھا کرچکے اب وہ شیطان بھی اور اس کے ساتھی یہ بھی دونوں جہنم میں گرے۔ دنیا میں ایسا ساتھی پیدا ہوا تھا کہ اپنے ساتھ جہنم میں لے کر گرا۔ یہ شیطان جو یاد الٰہی سے غافل ہونے پر قائم ہوتا ہے شیطان جنی ہے جس کا مرکب اس کے بدن میں قوت شہوانیہ و غضبانیہ و نفسانیہ و جمیع قوائے بہیمیہ ہیں انسان جب یاد الٰہی میں مصروف رہتا ہے تو روح کا جوہر نورانی اس مبدئِ فیاض و نور مطلق کی تجلی سے منور رہتا ہے ‘ نیک و بد کا کامل امتیاز رہتا ہے ‘ خدا کی سیدھی راہ پر چلتا ہے۔ اس کے تمام کاروبار فطرت کے موافق سرزد ہوتے ہیں اور انبیاء چونکہ ہمہ وقت یاد الٰہی میں رہتے ہیں شیطان سے محفوظ رہتے ہیں اور معصوم ہوتے ہیں اور جب یہ ادھر سے غافل ہوا قوائے بہیمیہ کی تاریکیاں اس پر ہر طرف سے محیط ہوئیں اور اس کو اندھا کردیا اب اس کے جو کام ہوں گے خلاف فطرت ہوں گے اور ان سے اور بھی تہ بر تہ تاریکیوں کی اس پر چڑھتی جاویں گی اور اس کو ابدالاباد تک جہنم بن کر گھیرے رہیں گے جو جہل مرکب کا نتیجہ ہے یہاں تک کہ جب اس عالم سے کوچ کرے گا اور قوائے بہیمیہ کا انجن ٹھنڈا ہوجاوے گا تب اس کو اپنے مرض کی خبر ہوگی اور تاسف کرے گا مگر کیا فائدہ۔ دنیا کی محبت اور خدا سے غافل ہونے کے ساتھ یہ بلائیں لگی ہوئیں ہیں کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ زتویک نفس جداشدم شدہ صد بلانصیبم من و بےتو زندگانی نکند خدا انصیبم پس جو ایسی تاریکیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کے حواس باطنیہ بھی زائل ہوجاتے ہیں وہ اندھا ہوتا ہے کچھ نہیں دیکھتا بہرہ ہوتا ہے کچھ نہیں سنتا۔ اب اس کو کسی کی نصیحت نفع نہیں دیتی۔ اسی بات کو خدا تعالیٰ اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ فقال افانت تسمع الصم اوتہدی العمی و من کان فی ضلال مبین کہ اے محمد ﷺ کیا تو ایسے بہرہ کو سنا سکتا ہے اور ایسے اندھے کو راہ بتا سکتا ہے اور اس کو جو ضلال مبین میں ہو راہ پر لاسکتا ہے ؟ نہیں کس لیے کہ ان میں صلاحیت ہی نہیں رہی۔ اس مرتبہ کو ضلال مبین کہتے ہیں۔
Top