Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 79
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَۚ
اَمْ اَبْرَمُوْٓا : بلکہ انہوں نے مقرر کیا اَمْرًا : ایک کام فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ : تو بیشک ہم مقرر کرنے والے ہیں
کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرارکھی ہے سو ٹھہرانے والے تو ہم ہی ہیں۔
تفسیر : پہلے فرمایا تھا کہ جہنم کا فرشتہ ان کے جواب میں کہے گا انکم ماکثون ولقد جئناکم بالحق ولکن اکثر کم للحق کارھون اب یہاں ان کی کراہتِ حق کو بیان فرماتا ہے کہ حق کے قبول کرنے کا تو کیا ذکر بلکہ وہ اس کے رد کرنے میں سینکڑوں مکرو تدابیر کیا کرتے تھے مگر کیا کرسکتے تھے کیونکہ ام ابرموا امرا کیا وہ قضاء و قدر میں مداخلت کر کے کوئی بات اس کے برعکس قائم کرسکتے تھے۔ نہیں بلکہ فانامبرمون مدبر امور ہم ہیں اور اس پر لطف یہ ہے کہ جانتے تھے خدا کو ہماری ان تدابیر و مکرو زور کی خبر نہیں حالانکہ ہمارے رسول یعنی فرشتے ان کے پاس ان کی باتیں لکھ رہے تھے۔ انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا چھاپا عالم غیب میں لگ جاتا ہے خواہ اس کام کو ستر پردوں میں کرے۔ ان تدابیر سے ان کی غرض بت پرستی کا قائم رکھنا تھا اس کے رد میں ان کو ایک تسلی بخش جواب دیتا ہے قل ان کان للرحمن ولد الخ کہ ان سے کہہ دے تم جو لوگوں کو یا بتوں کو خدا کا بیٹا سمجھ کر پوجتے ہو یہ تمہارا خیال غلط ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں اگر ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی تعظیم و تکریم کرتا اور اس کو پوجتا سبحان رب السموات الخ بلکہ وہ تمہاری ان باتوں اور لغو خیالات سے پاک ہے اس کے بعد ان کو تنبیہ کرتا ہے فذرھم الخ کہ اے محمد ﷺ ! ان کو چھوڑ کہ وہ بیہودہ باتیں بنائیں اور کھیلیں کو دیں یہاں تک کہ اپنی سزا کے وقت کو پہنچ جاویں۔ وھوالذی سے لے کر وھم یعلمون تک خدا تعالیٰ کی عظمت اور ان کے بتوں کی کمزوری بیان فرماتا ہے تاکہ ان کو نہ پوجیں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ کہ اس کی آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی حکومت اور خدائی ہے اور کسی کی نہیں اور وہ حکیم ہے اور علیم اور نہ صرف اس کی حکومت ہے بلکہ آسمانوں اور زمین میں اور ان کے بیچ جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور قیامت کا علم بھی اسی کو ہے اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے فنا بھی کرے گا اور سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے بلکہ جا رہے ہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح اس کی طرف اس عالم میں احتیاج ہے اور تمام جہاں کا وہی خالق ومالک ہے اسی طرح دوسرے عالم کا بھی وہی مالک و مختار ہے کہ جہاں ہر ایک کو جانا ہے اور خلقت چلی جا رہی ہے۔ یہاں تک تو اس کے اوصاف الوہیت تھے اب غیر معبودوں کی کیفیت بیان فرماتا ہے ولایملک الخ کہ جن کو وہ پکارتے ہیں اور ان کے بیحد اختیارات بڑھانے کے لیے ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ازخود کسی کو کچھ لینا دینا تو درکنار وہ کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے کہ اس جہاں میں یا وہاں سفارش کر کے کسی کو کچھ دلوادیں یا عذاب سے چھڑا دیں۔ مگر ان کے معبودوں میں سے وہ سفارش کے مجاز ہیں کہ جنہوں نے حق کی شہادت دی یعنی لا الہ الا اللہ کہا ‘ توحید و رسالت کے قائل ہوئے اور یہ شہادت بھی علم و یقین سے ہے۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک مرتبہ اور درجہ سفارش رکھتے ہیں۔ اس سے مرادا رواح طیبات اور ملائکہ کرام ہیں کیونکہ مشرکین ان کو بھی پوجتے تھے خدا نے ان کے مرتبہ کو مستثنیٰ کرلیا۔ اس کے بعد انہیں کے اقرار سے مشرکین کو قائل کرتا ہے بقولہ ولئن سالتہم من خلقہم الخ کہ اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ ان چیزوں کو کہ جن کو وہ پکارتے ہیں یا خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے کیونکہ اس بات کا ان کو فطرتاً علم تھا فانی یؤفکون تو پھر کہاں بہکے چلے جاتے ہیں کہ جو خالق نہیں بلکہ مخلوق ہے خالق حقیقی کو چھوڑ کر اس کو پوجتے اور پکارتے ہیں۔ وقیلہ یا رب ان ھؤلاء قوم لایؤمنون وقیلہ کو بالجر پڑھا ہے لفظ الساعۃ پر معطوف ہونے کی وجہ سے تب یہ معنی ہوں گے کہ خدا کو قیامت کا بھی علم ہے اور رسول کے اس کہنے کا بھی کہ اے رب ! یہ قوم ایمان نہیں لاتی۔ پھر دیکھئے قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا عدالت کا یاد دلانا اور جرم کا معلوم ہونا جتلانا بڑا اثر بخش کلمہ ہے اس کے لیے جو کچھ بھی سعادت ازلی سے بہرہ یاب ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ قیلہ منصوب ہے محل الساعۃ پر معطوف ہونے کے سبب یا نجواھم و سرھم پر معطوف ہونے کے سبب اے یعلم نجواھم اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مجرور ہے حرف قسم مضمر ہے تب یہ معنی ہوں گے کہ ہم کو رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے رب ! یہ قوم ایمان نہیں لاتی۔ اور جواب محذوف ہے کہ ہم ان کو ان کی سرکشی کا مزہ چکھائیں گے۔ اس کے بعد فرماتا ہے فاصفح عنہم و قل سلام کہ اے رسول ! یہ سرکش لوگ گمراہ ازلی ہیں ‘ نہیں مانیں گے ‘ ان سے اعراض کیجئے اور سلام کہئے۔ سلام کہنا محاورہ ہے رخصت کرنے سے اور علیحدہ ہونے سے اس کو سلام رخصت کہتے ہیں۔ یہ کس لیے فسوف یعلمون ان کو ابھی معلوم ہوجاوے گا۔ یعنی موت ہر شخص کے بہت قریب ہے مرتے ہی سب نیک و بد کا نتیجہ سامنے ہوجاوے گا۔ الہ العلمین ہم کو اپنی مرضی سے چلنا نصیب کر اور اپنی رضامندی میں رکھ کہ پھر ہم کو اپنی نافرمانی کے رنج واندوہ نہ اٹھانے پڑیں آمین بحرمۃ النبی الامین (علیہ الصلوۃ والسلام) الیٰ یوم الدین۔
Top