Tafseer-e-Haqqani - Al-Fath : 21
وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا
وَّاُخْرٰى : اور ایک اور (فتح) لَمْ تَقْدِرُوْا : تم نے قابو نہیں پایا عَلَيْهَا : اس پر قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ : گھیر رکھا ہے اللہ نے بِهَا ۭ : اس کو وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور بھی فتوحات ہیں کہ جو (اب تک) تمہارے بس میں نہیں آئیں البتہ اللہ کے بس میں ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ترکیب : سنۃ اللہ انتصابہ علی المصدریۃ بفعل محذوف ای سن اللہ سنۃ اوھو مصدرہ مؤکدلمضمون المجلۃ المتقدمۃ من ھزیمۃ الکفار ونصرالمؤمنین والہدی قرء الجمہور بنصب الھدی عطفا علی الضمیر المنصوب فی صدوکم وقریٔ بالجر عطفاعلی المسجد معکوفًا انتصابہ علی الحال من الہدی قال الجوھری عکفہ ای حبسہ و منہ الاعتکاف فی المسجد وھوالا حتباس ان یبلغ ای عن ان یبلغ اومفعول لاجلہ ولولا شرط وجوابہ محذوف و التقدیر لاذن اللہ لک المعرۃ العیب وقیل الشدۃ وقیل الغم بغیر علم متعلق بان تطوھم ای غیر عالمین لیدخل اللام متعلقہ بمایدل علیہ الجواب المقدرای لم یاذن لکم اوکف ایدیکم لیدخل اللہ حمیۃ الجاھلیۃ بدل من الحمیۃ اھلہا عطف تفسیری ای وکان المؤمنون احق بھذہ الکلمۃ من الکفارو المستاھمین لھا دونہم۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا وکف ایدی الناس عنکم اس پر مخالفوں کو شبہ کی گنجائش تھی کہ خیبر کے لوگ ڈر گئے اور لڑے نہیں یہ اتفاقی بات تھی اگر سب جمع ہوجاتے تو دیکھتے کیا ہوتا۔ اس سے پہلے عرب مدینہ پر چڑھ کر آئے اور نبی ﷺ کو حدیبیہ میں روک دیا۔ اس کا جواب دیتا ہے ولوقاتلکم الذین کفروا کہ اگر وہ تم سے لڑتے بھی تو پیٹھ دے کر بھاگتے اور ان کا کوئی حمایتی اور مددگار کھڑانہ ہوتا۔ یہ کیوں ؟ اللہ کا ہمیشہ سے یہی دستور ہے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی قوم سے نجات دی موسیٰ ( علیہ السلام) کو فرعونیوں سے نجات دی۔ فلسطین اور شام کے رہنے والوں پر غلبہ دیا اس کا دستور بدلتا نہیں۔ اس نبی کا دین بھی اسی دستور کے موافق غلب پاوے گا یہ آسمانی منشا ہے۔ اس نبی کی نسبت پہلے انبیاء فرما گئے ہیں۔ یہ پتھر جس پر گرے گا اس کو چور چور کرے گا اور جو اس پر آگرے گا چورا چورا ہوجائے گا اس کے بعد اپنی قدرت کاملہ کا تصرف ظاہر کرتا ہے ایک واقعہ یاد دلا کر فقال وھو الذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیہم الخ کہ بطن مکہ یعنی اس کی حرم میں جو کفار کا مجمع تھا ان کے ہاتھ ہم نے روکے جو بظاہر خلاف قیاس بات تھی کیونکہ جب وہ باہر آکر لڑنے کو موجود تھے وہاں تو اور بھی ان کو موقع تھا اور اسی طرح تم کو قابو دے کر تمہارے ہاتھ روک دیے جنگ نہ ہونے دی۔ قابو دینے کی بابت ابن ابی شبیہ واحمد و مسلم و ابودائود و نسائی و ترمذی وغیر ہم نے یہ نقل کیا ہے کہ اسی جوان ہتھیار بند اہل مکہ کے تنعیم پہاڑ کی طرف سے نبی ﷺ پر (بمقام حدیبیہ) حملہ کے قصد سے آئے۔ آپ نے بددعا کی وہ گرفتار کرلیے گئے پھر آپ نے ان کو معاف کردیا۔ بعض نے یہ بھی روایت کی ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل ایک جماعت کو لے کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان نکلے اور پتھروں سے لڑائی ہوئی کفار کو بھگا کر خاص مکہ میں ان کے گھروں تک پہنچا دیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ سلمہ بن اکوع ؓ نے چند مشرکین گرفتار کئے تھے ان کی طرف اشارہ ہے خیر جو کچھ ہو مسلمانوں کا قابو یافتہ ہو کر جنگ سے روکنا اس کی قدرت کا نمونہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کف ایدیہم وایدیکم سے مراد یہ ہے کہ تم میں ان میں جنگ نہ ہونے دی یعنی فتح مکہ کے دن اور یہ اسی دن کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد واقع ہوا اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مکہ صلح سے فتح نہیں ہوا بلکہ زور و شوکت سے۔ اس کے بعد وہ باعث بتلاتا ہے کہ جس سے اے مسلمانو ! تم میں اور ان میں جنگ ہونی ضروری تھی مگر خدا نے نہ ہونے دی فقال ھم الذین کفروا کہ وہ تو وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے دین حق کا انکار کیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ صدوکم عن المسجد الحرام تم کو مسجد الحرام یعنی خانہ کعبہ سے روک دیا (حدیبیہ کے روز) اور صرف تم کو نہ بلکہ والہدی معکوفاً ان یبلغ محلہ ہدی یعنی قربانی کو محبوس یعنی بند کردیا اس کے مقام پر نہ پہنچنے دیا اور ان کا مقام حرم ہے جہاں وہ ذبح ہوا کرتی ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ستر قربانیاں ساتھ تھیں لاچار حدیبیہ میں ہی ذبح کی گئیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو کعبہ آنے سے رک جاوے اس کی قربانی منٰی میں آکر ذبح ہونی چاہیے کیونکہ یہی اس کی جگہ ہے یعنی حرم اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے امام شافعی (رح) کہتے ہیں جہاں رکے وہیں ذبح کر دے جیسا کہ حدیبیہ میں آنحضرت ﷺ نے کیا۔ اس مسئلہ کی تحقیق آچکی ہے۔ اب مسلمانوں کے جنگ سے ہاتھ روکنے کی مصلحت و حکمت ظاہر کرتا ہے فقال ولولا رجال مؤمنون ونساء مؤمنات الخ کہ مکہ میں کچھ مرد کچھ عورتیں درپردہ ایمان لائے ہوئے تھے جن کی تم کو خبر نہ تھی جنگ ہوتی تو تمہارے ہاتھ سے وہ پامال ہوجاتے جس سے تم پر عیب والزام ہوتا اگر وہ وہاں نہ ہوتے تو تم کو لڑنے کا حکم دیا جاتا خدا نے تم پر مہربانی کی اور وہ جس پر چاہتا ہے مہربانی کیا کرتا ہے اگر یہ لوگ وہاں نہ ہوتے جن پر اللہ کی رحمت تھی جن کے سبب یہ بچ گئے تو ہم کفار کو سخت سزا دیتے۔ صحابہ ؓ کا پرہیزگار ثابت ہونا : اب ایک اور سبب بیان فرماتا ہے کہ جو باہمی جنگ کے لیے پیدا ہوگیا تھا مگر اللہ نے دونوں فریق کے ہاتھ روک دیے فقال اوجعل الذین کفروا فی قلوبہم الحمیۃ حمیۃ الجاھلیۃ کہ کافروں نے اپنے دلوں میں جہالت کا جوش اور تعصب پیدا کرلیا تھا کہ ہمارے لوگ تو قتل ہوں اور پھر یہ ہمارے شہر اور گھروں میں آویں اور عرب سن کر کیا کہیں گے ہم ہرگز طواف کعبہ کے لیے بھی نہیں آنے دیتے۔ اس سے مسلمانوں کو جوش ہونا فطری بات تھی۔ لیکن فانزل اللہ سکینۃ علی رسولہ و علی المؤمنین اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان نازل کیا کفار کے اس جوش سے ان کو خوف پیدا نہ ہوا۔ بخاری و مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ عمر ؓ حضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا ہم حق پر وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں ان کے دوزخ میں نہیں ؟ پھر کس لیے ہم دین میں ان سے دبیں۔ آپ نے فرمایا بیشک مگر میں اللہ کا رسول ہوں مجھے ضائع نہ کرے گا۔ اسی طرح صدیق ؓ سے کہا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اطمینان اہل اسلام کا یہ حال تھا والزمہم کلمۃ التقوٰی اللہ نے اس اطمینان پر مسلمانوں کو پرہیز گاری کی بات کا پابند کردیا۔ بعض کہتے ہیں کلمۃ التقویٰ سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ زہری کہتے ہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کو کفار نے صلح نامہ میں درج نہ ہونے دیا تھا وکانوا احق بہا اور مسلمان اسی کے لائق بھی تھے۔ وکان اللہ بکل شیئٍ علیما اور اللہ ہر بات سے واقف ہے اس سے صحابہ ؓ کا پرہیز گار ہونا ثابت ہوا۔
Top