Tafseer-e-Haqqani - Al-Fath : 5
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًاۙ
لِّيُدْخِلَ : تاکہ وہ داخل کرے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں جَنّٰتٍ : جنت تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : ان میں وَيُكَفِّرَ : اور دور کردے گا عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ ۭ : ان کی بُرائیاں وَكَانَ ذٰلِكَ : اور ہے یہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک فَوْزًا : کامیابی عَظِيْمًا : بڑی
) زمینی لشکر سے اس لیے کام لیا) تاکہ ایماندار مردوں اور عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے اور ان کی برائیاں ان سے دور کرنے کو اور اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے
ترکیب : لیدخل متعلقہ بقولہ انا فتحناوقیل متعلقۃ بینصرک وقیل متعلقۃ بمحذوف ینا سب المقام جنات مفعول فیہ خالدین حال من المؤمنین ویکفر معطوف علی یدخل و یعذب ایضا معطوف علیہ وغضب ولعن واعد عطف علی احد مع ان الواوفی الاخیرین فی محل الفاء لیدل علی استقلال الکل فی الوعید۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا وکان اللہ علیما حکیما۔ اب زمینی لشکر سے اسلام کو فتحیاب کرنے کی حکمت بتلاتا ہے۔ فقال لیدخل تاکہ ان جاں فشاں ایمانداروں کو جنت میں داخل کرے اور ان کے مساعی جمیلہ کو ان کے گناہوں کا کفارہ کر دے جو اللہ کے نزدیک بڑی بہتری اور انسان کی کامیابی 2 ؎ ہے۔ اس سے زیادہ انسان کے لیے اور کیا مراد و تمنا ہوسکتی ہے کہ اس کے گناہوں پر مواخذہ نہ ہو اور وہ ہمیشہ بہشت میں رہا کرے۔ اگرچہ اور معاملات میں اللہ تعالیٰ نے مردوں ہی کی طرف خطاب کیا ہے اور عورتیں تبعاً شامل ہیں مگر یہاں جہاد کے صلے میں انعام مذکور ہوئے ہیں اور عورتیں جہاد میں شریک ہو نہیں ہوسکتیں جس سے گمان ہوسکتا کہ عورتوں کو یہ انعام نہ ملے گا مگر ایسی جوانمردی کی عورتیں بھی ان معاملات میں دل سے شریک ہوتی ہیں جب مرد باہر جہاد میں جاتے ہیں پیچھے انتظام خانہ داری کرتی ہیں اور چلتے وقت سامان مہیا کرتی ہیں اس لیے اس کریم نے ان کی تصریح بھی کردی۔ مومنین کے بعد مومنات کا لفظ بھی بڑھا دیا اسی طرح گمراہوں کی عورتیں ان کے شریک حال ہوتی ہیں ان کا بھی عذاب میں نام لیا گیا۔ فقال یعذب المنافقین و المنافقات الخ اور جہاد کے حکم میں یہ بھی مصلحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں حجت تمام کر کے منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب کرے۔ دنیا میں بھی قتل کئے جائیں۔ اسیر ہوں گھر بار لوٹے جاویں اور آخرت میں جہنم میں جلیں۔ اس مقام پر منافقوں اور مشرکوں کا ایک عیب بیان کیا جو نفاق و شرک کے علاوہ ہے اور وہ یہ کہ الظانین باللہ اللہ سے بدگمانی کرتے ہیں (کہ رسول سے جو اللہ نے دین کے غلبہ کا وعدہ کیا ہے باوجود بےسروسامانی کے کیونکر پیغمبر کی جماعت غلبہ پاوے گی۔ یہ محض جھوٹے وعدے ہیں) اس کے جواب میں فرماتا ہے : (1) علیہم دائرۃ السوء دائرہ مصدر ہے اسم فاعل کے وزن پر یا اسم فاعل ہے داریدور سے دائر خط محیط کو کہتے ہیں پھر اس کا استعمال حادثہ میں ہونے لگا جو جس پر پڑتا ہے اس کا احاطہ کرلیتا ہے۔ سوء بضم بمعنی عذاب وہزیمت و شروبالفتح بمعنی برائی اس لیے دونوں قرأت ہیں۔ یعنی انہی پر حادثہ پڑے گا نہ مسلمانوں پر جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں۔ (2) ان پر اللہ کا غضب ہے (3) اس کی لعنت۔ (4) ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ اور وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ پیغمبر ( علیہ السلام) کے پاس اسباب ظاہری نہیں وہ کیونکر فتح پاویں گے کس لیے کہ وللہ جنود السمٰوت والارض اللہ کے پاس آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں جس سے چاہے کام لے وہ رب الافواج ہے کون اس کا مقابلہ کرسکتا ہے اور وہ زبردست ہے اس پر حکیم بھی ہے حکمت کے ساتھ زور بہت کام دیتا ہے۔ 2 ؎ یہ فتوحات غیبیہ مخلصین اور غیر مخلصین میں امتیاز کردیتی ہیں اس لیے مومن دار فانی میں حیات ابدی کے اور منافقین اور مشرکین جہنم کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ 12 منہ حقانی
Top