Tafseer-e-Haqqani - Al-Hujuraat : 14
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قَالَتِ : کہتے ہیں الْاَعْرَابُ : دیہاتی اٰمَنَّا ۭ : ہم ایمان لائے قُلْ : فرمادیں لَّمْ تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہیں لائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قُوْلُوْٓا : تم کہو اَسْلَمْنَا : ہم اسلام لائے ہیں وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ : داخل ہوا ایمان فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَاِنْ : اور اگر تُطِيْعُوا : تم اطاعت کروگے اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : اللہ اور اس کے رسول کی لَا يَلِتْكُمْ : تمہیں کمی نہ کرے گا مِّنْ اَعْمَالِكُمْ : تمہارے اعمال سے شَيْئًا ۭ : کچھ بھی اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
بدوی کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ تو کہو تم ہرگز ایمان نہیں لائے۔ ہاں یہ کہو کہ ہم تابعدار ہوگئے حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان کا تو گزر ہی نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے اعمال (کی اجرت) میں بھی کچھ کمی نہ کرے گا۔ البتہ اللہ بخشنے والا ‘ مہربان ہے۔
ترکیب : الشعوب جمع شعب بفتح الشین ھواعلی طبقات النسب وتحتہ قبائل جمع قبیلۃ وبعدھا العمائر ثم البطون ثم الافخاذثم الفصائل خزیمہ شعب کنانۃ قبیلہ قریش عمارۃ بکسرالعین قصی بطن ہاشم فخذالعباس فصیلۃ۔ تفسیر … بارہواں حکم : جس کو اور دوسرے پیرایہ میں بیان فرماتا ہے یا ایہا الناس اناخلقناکم من ذکر وانثٰی کہ اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک مرد یعنی آدم اور ایک عورت یعنی حوا سے پیدا کیا ہے تم سب کی ایک ذات اور ایک نسب ہے وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا پھر تمہارے قبیلے اور جتھے جدے جدے کردیے پہچان کے لیے نہ نسب پر فخر کرنے کے لیے کیونکہ نسب تو سب کا ایک ہے۔ اب یہ فخر کی چیز نہیں بلکہ پرہیزگاری کس لیے کہ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم اللہ کے نزدیک عزت دار تم سے وہ ہے جو پرہیز گار ہے یعنی نسب پر فخر نہ کیا کرو۔ عارف جامی نے 1 ؎ یقرء بہمزۃ بعدالیار وماضیہ آلت یقال آلت یالت بالفتح فی الماضی والکسر فی المضارع وقرء بغیر ہمزۃ وماضیہ لانھا یلیت وھما لغتان ومعناھما النقصان۔ 12 منہ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامیؔ کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست ان اللہ علیم خبیر بزرگی کے اسباب خدا کو معلوم ہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انساب ظنیہ ہیں۔ اصل حال وہی خوب جانتا ہے اور اس طرف بھی کہ انجام کار بھی اسی کو معلوم ہے بہت سے عزت دار چند روز کے بعد لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہوگئے ہیں۔ جب یہ بیان فرمایا کہ مدار کار بزرگی کا پرہیز گاری پر ہے اب اصلی اور مصنوعی پرہیزگاری کا حال بیان فرماتا ہے فقال قالت الاعراب آمنا کہ زبان سے ایمان لانا کہنا مصنوعی پرہیز گاری ہے۔ ایسا ایمان زبان پر ہے دل میں نہیں ہاں اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اصلی تقویٰ ہے اگر اے اعراب ! تم کرو گے تو تمہارے اعمال کی اجرت میں خدا کمی نہ کرے گا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اعراب سے مراد اس جملہ میں بنواسد ہیں کہ قحط کے ایام میں صدقہ لینے کی غرض سے اظہار کیا کہ ہم ایمان لائے مگر دراصل دل میں ایمان اور اللہ اور رسول کی اطاعت مقصود نہ تھی۔ فرمایا آمنا کہنا تمہارا صحیح نہیں ہاں اسلمنا کہنا درست ہے کہ بظاہر مطیع اسلام ہوگئے ہیں۔ ایمان اور اسلام ایک چیز ہے عرف شرع میں ایمان اور اسلام دونوں لفظوں سے ایک ہی مراد ہے وہ کیا ؟ دل سے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی تصدیق کرنا اور احکام شرع کو قبول کرنا۔ اس جگہ اسلمنا کے لغوی معنی مراد ہیں جس لیے ایمان سے جدا سمجھا گیا۔ اس آیت سے یہ سمجھ لینا کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز بڑی غلطی ہے۔ اس کے بعد حقیقی ایمان وتقویٰ کا بیان کرتا ہے انما المؤمنون کہ حقیقی مومن وہ ہیں کہ جو صدق دل سے اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور جان و مال اللہ کے لیے صرف کرنے میں دریغ نہیں کرتے یہی سچے ایماندار ہیں۔ دنیاوی غرض سے ایمان لانے والے اپنا ایمان جتلایا کرتے تھے اور نبی ﷺ پر احسان جتلاتے تھے کہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ہم سے سلوک کیجئے کچھ دیجئے۔ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ کیوں ایمان جتلاتے ہو تمہارا ایمان خدا کو معلوم ہے اس سے کوئی شے مخفی نہیں اور کیوں احسان جتلاتے ہو بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تم کو ہدایت دی اگر تم سچے ایماندر ہو۔
Top