Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور (یاد کرو) جبکہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں تو حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم فرمانبردار ہیں
(7) واذ اوحیت الی الحواریین جو لوگ حواریوں کی نبوت کے قائل ہیں وہ وحی سے وحی انبیاء مراد لیتے ہیں اور جو ان کو نبی نہیں سمجھتے تو بمعنی الہام یعنی القاء فی القلب خدا نے حواریوں کے دل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی توفیق پیدا کی سو وہ ایمان لائے۔ جیسا کہ انا جیل سے ثابت ہے۔ (8) اذ قال الحواریون یا عیسیٰ ابن مریم یہ اس وقت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دریائِ طہر یاس کے پاس دعا کی تو خدا نے پانچ روٹیوں اور دو تلی ہوئی مچھلیوں سے پانچ ہزار آدمیوں کو شکم سیر کردیا۔ یہ برکت دینا آسمان یعنی عالم غیب سے مائدہ نازل کرنا ہے جیسا کہ انجیل یوحنا کے 6 باب میں مذکور ہے۔ باقی یہ حواریوں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو گو ان کتابوں میں نہ ہو مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حواریوں میں گفتگو ہوئی تھی وہ سب ان چاروں انجیلوں میں موجود ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مائدہ 2 ؎ کا نازل ہونا اس معجزہ مذکور کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے جو انا جیل اربعہ میں مذکور نہیں۔ پھر اس کی کیفیت میں مختلف اقوال ہیں کہ یہ ایک ایسے محل کا قصہ ہے کہ جہاں حواریوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا۔ تب انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ کیا اللہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس پر حضرت نے خفا ہو کر فرمایا کہ اگر تم کو ایمان ہے تو اللہ سے ڈرو۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ محض اطمینان اور اپنے کھانے کے لئے یہ سوال ہے ورنہ اس کی قدرت میں کچھ کلام نہیں۔ تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی دعا کی کہ الٰہی آسمان سے مائدہ نازل کر کہ ہمارے اول آخر کے لئے عید یعنی باعث خوشی ہو اور تیری طرف سے نشانی ہو۔ خدا نے فرمایا میں مائدہ نازل کرتا ہوں مگر اس کے بعد جو ناشکری کرے گا۔ اس کو عذاب دوں گا جو جہان میں کسی کو نہ دوں گا۔ اس پر آسمان سے دسترخوان کہ اس کے اوپر بھی ایک بدلی اور نیچے بھی ایک بدلی تھی نازل ہوا۔ اس کو کھول کر دیکھا تو اس میں تلی ہوئی مچھلی اور پانچ روٹیاں اور ترکاریاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعض 1 ؎ خریہ دو انجیلیں ہیں اول طفولیت عیسائیوں کے فرقہ ناسٹکس میں دوسری صدی میں مسلم تھی اور جو ایشیا و افریقہ کے اکثر گرجائوں میں پڑھی جاتی اور جس پر عقائد کا مدار تھا۔ وہ یہی انجیل تھی اور بعد میں یوسبیس اور اتھانسیس وغیرہ عیسائیوں کے مستند علماء بھی ان سے سند پکڑتے تھے۔ 12 2 ؎ زجاج کہتا ہے مائدہ بروزن فاعلۃ من مادیمید اذا تحرک فاوکانہا تمید بما فیہا۔ ابن انباری کہتے ہیں کہ مائدہ کو اس لئے مائدہ کہتے ہیں کہ وہ بمعنی عطیہ ہے۔ 12 منہ کہتے ہیں کہ ہر قسم کی نعمتیں اس میں تھیں۔ پھر بعض کہتے ہیں کہ یہ بات صرف ایک بار ہوئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس روز تک نازل ہوتا رہا۔ ایک دن بیچ کرکے آتا تھا۔ پھر جب لوگوں نے سحر اور نظربندی کی بدگمانی کی تو ان کے منہ سور کے ہوگئے۔ تین روز کے بعد تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ ایسا ہوناممکن ہے مگر یہ قصص نہ تو قرآن میں ہیں نہ نبی ﷺ سے ان کا کچھ ثبوت ہے مورخوں کے اقوال ہیں مگر حسن بصری اور مجاہد کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے ناشکری پر سخت عذاب آنے کی سنی تو پھر درخواست نہ کی اس لئے مائدہ نازل نہ ہوا کیونکہ اگر ہوتا تو اس کے نازل ہونے کا دن نصاریٰ میں عید کا دن ہوجاتا حالانکہ نہیں۔ قرآن سے بھی صرف دعا کرنا ثابت ہے۔ فقیر کے نزدیک مائدہ کا نازل ہوناپایا گیا جیسا کہ اس کا پتا انجیل یوحنا سے لگتا ہے اور عیسائیوں کے پاس بےاندازہ دنیا کا جمع ہونا اسی کا ثمرہ ہے۔ نیچر مفسر نے ان معجزات کے مٹانے پر بہت کچھ ہاتھ پائوں مارے ہیں اور جبکہ آیات قرآنیہ کی کوئی تاویل ہی نہ ہوسکی تو کہیں بےتکعطفتفریع کا جھگڑا لے بیٹھے کہیں یہ کہہ دیا کہ مفسرین کو یہود و نصاریٰ کی تقلید کی عادت ہے۔ غرض بےتک ہذیان ہے جس کی بنیاد نہ کسی دلیل عقلی پر ہے نہ نقلی پر بلکہ صرف اس بات پر کہ معجزہ کا وجود ممکن نہیں سو اس کا جواب مقدمہ میں ہوچکا ٗ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
Top