Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 59
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب هَلْ تَنْقِمُوْنَ : کیا ضد رکھتے ہو مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم سے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَنَّ : اور یہ کہ اَكْثَرَكُمْ : تم میں اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کہہ دو کہ اے اہل کتاب ! کیا تم ہم سے اسی بات کا بدلہ لیتے ہو کہ ہم اللہ پر اور وہ جو ہماری طرف نازل ہوا اس پر اور جو کچھ ہم سے پہلے نازل ہوا اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں سے بہت لوگ فاسق ہیں
ترکیب : وان اکثرھم فاسقون جملہ معطوف ہے ان آمنا پر مثوبۃ تمیز ہے بشر سے من لعنہ اللّٰہ جملہ بدل ہے بشر سے وعبد اگر ماضی کا صیغہ مانا جاوے تو اس کا عطف لعنہ اللہ پر ہے ورنہ القردۃ۔ تفسیر : یہود و نصاریٰ جو اسلام کی عبادت و اذان پر ٹھٹھہ کرتے تھے اب ان سے بطور الزام کے کہا جاتا ہے کہ کیوں صاحبو ہم پر ٹھٹھا کرنے کا یہی باعث ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ اس نبی اور اس سے پہلے انبیاء پر نازل کیا ایمان رکھتے ہیں اور تم میں سے اکثر نماز و روزہ سے غافل اور فاسق ہیں ؟ تو یہ تو کوئی عیب اور برائی کی بات نہیں۔ ہاں عیب اور برائی کے قابل وہ لوگ ہیں کہ جن پر خدا نے لعنت کی اور ان کی صورتوں کو بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کیا اور انہوں نے طاغوت یعنی شیطان کی پرستش یعنی پیروی کی۔ چونکہ یہود میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی تھیں اور اس کو وہ تسلیم کرتے تھے اس لئے تعریضاً ان پر اس قابل عیب بات کا اشارہ کیا۔ بندر اور سور بنانا اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو حضرت دائود (علیہ السلام) کے عہد میں یہود پر سبت کے روز شکار کرنے کی وجہ سے گذرا تھا کہ خدا نے ان کے چہروں کو طاعون کے مرض میں مبتلا کرکے ایسا سوجا پھلا دیا تھا کہ بعض کی بندر کی صورت اور بعض کی سور کی صورت معلوم ہوتی تھی۔ آخر تین روز کے اندر اندر اسی میں ہلاک ہوگئے۔ اس کا بیان اوپر گذر چکا۔ عبدالطاغوت میں یہود کی اس بت پرستی اور فسق و فجور کی طرف اشارہ ہے کہ جو بخت نصر کے عہد سے پہلے اور اس کے پیچھے ان میں توریت اور شریعت کے ترک کرنے سے واقع ہوئی۔ چونکہ یہود کا حسن ایمانی بالکل جاتا رہا خدا پرستی اور نیک بختی اور فسق و فجور ان کے نزدیک کچھ بھی وزن نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ اغراض دنیا کے واسطے جب آنحضرت ﷺ کی مجلس وعظ و پند میں آتے تو ایمان ظاہر کرتے تھے مگر جب اٹھ کر جاتے تھے تو دامن و آنچل جھاڑ کر ویسے کے ویسے ہی اٹھتے تھے۔ ان کی اس حالت سے خدا تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اذا جاؤکم قالوا آمنا الخ یعنی اس قوم کے شجر کہنہ میں اصلاح کی قابلیت ہی نہ رہی۔ یہ اس قابل ہے کہ اس کو زمین پر سے بالکل کاٹ دیا جاوے کہ اس کے کانٹے اور برے پھلوں سے اور بنی آدم کا مزاج روحانی خراب نہ ہو سو ایسا ہی ہوا۔
Top