Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ جو ایمان لائے (ایمان والے)
اِذَا
: جب
قُمْتُمْ
: تم اٹھو
اِلَى الصَّلٰوةِ
: نماز کے لیے
فَاغْسِلُوْا
: تو دھو لو
وُجُوْهَكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيَكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِلَى
: تک
الْمَرَافِقِ
: کہنیاں
وَامْسَحُوْا
: اور مسح کرو
بِرُءُوْسِكُمْ
: اپنے سروں کا
وَاَرْجُلَكُمْ
: اور اپنے پاؤں
اِلَى
: تک
الْكَعْبَيْنِ
: ٹخنوں
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
جُنُبًا
: ناپاک
فَاطَّهَّرُوْا
: تو خوب پاک ہوجاؤ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر (میں)
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ
: اور
جَآءَ
: آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
مِّنَ الْغَآئِطِ
: بیت الخلا سے
اَوْ لٰمَسْتُمُ
: یا تم ملو (صحبت کی)
النِّسَآءَ
: عورتوں سے
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر نہ پاؤ
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرلو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: تو مسح کرو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
مِّنْهُ
: اس سے
مَا يُرِيْدُ
: نہیں چاہتا
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَجْعَلَ
: کہ کرے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْ
: کوئی
حَرَجٍ
: تنگی
وَّلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّرِيْدُ
: چاہتا ہے
لِيُطَهِّرَكُمْ
: کہ تمہیں پاک کرے
وَلِيُتِمَّ
: اور یہ کہ پوری کرے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: احسان مانو
اے ایمان والو جبکہ تم نماز کے لئے اٹھا کرو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور اپنے سر کا مسح کرلیا کرو اور پائوں بھی ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر ناپاک ہو تو نہا لیا کرو اور اگر تم بیمار ہو یا برسر سفر ہو یا کوئی تم میں سے پاخانہ پھر کر آوے یا تم میں سے کسی نے عورت کو چھوا ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اس سے اپنے منہ اور اپنے ہاتھوں کا مسح کرلیا کرو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے لیکن وہ تو تم کو پاک رکھنا چاہتا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کیا چاہتا ہے تاکہ تم شکر کیا کرو۔
ترکیب : اذ شرطیہ فاغسلوا جواب الی المرافق الی بمعنی مع متعلق ہے اغسلوا سے برؤسکم بازائد ہے وقیل للا لصاق وارجلکم بالنصب اس لئے کہ اس کا عطف وجوھکم پر ہے ای فاغسلوا ارجلکم اور بالجر اس طور سے کہ اس کو رئوس پر معطوف کیا جاوے اور حکم دونوں کا مختلف ہو اور اس کو جر جوار کہتے ہیں یعنی سر کا مسح ہو اور پائوں دھونے چاہییں اور اس قسم کا جر جو قرآن مجید اور کلام شعراء میں واقع ہے وان کنتم شرط فتیموا الخ جواب۔ تفسیر : اس سورة میں اول اوفوا بالعقود کہہ کے وفائِ عہد کا حکم دیا گیا تھا مگر اس سے ضمناً یہ بات بھی نکلتی تھی کہ جب تم بندے ہو کر عہد کو پورا کرنے پر مجبور کئے جاتے ہو تو میں رب العالمین زیادہ تر اپنے اس عہد کے پورا کرنے کا مستحق ہوں جو میں نے اپنے بندوں سے کیا ہے۔ چونکہ اللہ کا عہد بندوں سے یہ تھا کہ ان کو منافع دنیاویہ مباح کر دے اور عالم آخرت میں ان کو جنت میں رکھے۔ سو سب سے اول منافع دنیا کی بابت (کہ جس کی انسان کو ہر وقت ضرورت پڑتی ہے اور جو حسنات عقبیٰ کا ذریعہ ہی) اس نے اپنا عہد وفا کیا۔ منافع دنیا یا کھانے پینے کی چیزیں ہیں یا مناکحت کے متعلق اور مقدم کھانا پینا ہے۔ اس لئے اول کھانے پینے کی چیزوں کی اباحت اور حلت بیان فرما کر پھر حلال عورتوں کا ذکر کیا کہ جن سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد وہ بندوں سے ان کے عہد عبودیت کو پورا کرتا ہے اور عبودیت میں سب سے اول درجہ میں نماز ہے اور نماز بغیر وضو درست نہیں کس لئے کہ کثافت جسمانیہ کا اثر نفس پر پہنچتا ہے۔ یہ تجربہ کی بات ہے اس لئے وضو کے بارے میں فرماتا ہے یا ایہا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوٰۃ الخ یا یوں کہو دنیا میں بندہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ آخر اس کو سفر درپیش ہے کہیں جانا ہے کہ جہاں سے پھر آنا نہیں۔ سودا کہتا ہے ؎ رخصت دے باغباں کہ ذرا دیکھ لیں چمن جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا اور آسمانی کتاب انسان کے فوائدِ دنیا و دین کے لئے نازل ہوا کرتی ہیں۔ پس جس طرح اس نے سب سے اول اس دنیا کے فوائد کو حلال حرام چیزیں کھانے پینے کے متعلق اور نکاح کے متعلق بیان فرما کر معاش کی اصلاح کردی کیونکہ سچ پوچھو تو دنیا ان ہی دو چیزوں سے عبارت ہے اور باقی سب جھگڑے اور بکھیڑے ان ہی کے لئے ہیں۔ اسی طرح اس نے عالم جاودانی اور فضائے نورانی کی تدبیر عبادتِ الٰہی تعلیم فرمائی اور عبادت اعلیٰ نماز جو پنج وقتہ اس کے دربار کی حضوری ہے اور یہ بغیر طہارت جسمانی یعنی وضو کے ٹھیک نہیں اس لئے وضو کا حکم دیا۔ فاغسلوا وجوھکم واید یکم فرمایا جس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اے بندے تو کب تک دنیائے فانی کے لذائذ کھانے پینے عورتوں سے صحبت کرنے میں مصروف رہے گا۔ اس ظلمت کدہ کی اس شہوانی سیاہی سے ہاتھ منہ دھو کر صاف پاک ہو کر اپنے اصلی مقام پر آ اور شہوات سے ہاتھ دھو۔ اذا قمتم الی الصلوٰۃ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نماز کا ارادہ کرو کیونکہ قیام الی الصلوٰۃ سے وضو مقدم بالاتفاق ہے۔ اس آیت سے وضو کا فرض ہونا ثابت ہے مگر اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو کرنا چاہیے بلکہ ایک وضو دوسری نماز کے وقت تک باقی رہے تو کافی ہے۔ وضو جدید ضرور نہیں جیسا کہ دائود ظاہری کا مذہب ہے کیونکہ مسلم و احمد و اہل سنن نے بریدہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو کیا کرتے تھے اور فتح مکہ کے روز صرف ایک وضو سے کئی نماز خفین پر مسح کرکے پڑھیں۔ عمر ؓ نے عرض کیا کہ آج آپ نے وہ بات کی جو پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ حضرت ﷺ نے فرمایا اے عمر میں نے اس کو عمداً کیا ہے اور بخاری اور احمد اور اہل سنن نے عمرو بن عامرانصاری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انس بن مالک ؓ فرماتے تھے کہ نبی ﷺ ہر نماز کے لئے جداگانہ وضو کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا پھر تم کیا کیا کرتے ہو۔ کہا کہ ہم تو جب تک حدث نہ ہو کئی نمازیں ایک ہی وضو میں پڑھ لیتے ہیں۔ ہاں باوجود وضو ہونے کے اگر دوسرے وقت میں وضو کرلے گا تو مستحب ہے۔ وضو کا اول فرض : فاغسلوا وجوھکم یہ وضو کا اول فرض ہے۔ اس میں تمام امت کا اتفاق ہے۔ اب رہے غسل وجہ (یعنی منہ) کے معنی اور کیفیت کہ جس کو قرآن نے عرف اہل زبان پر چھوڑ دیا۔ البتہ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ غسل لغت میں کسی عضو پر پانی بہانے کو کہتے ہیں نہ محض تر کرنے کو۔ اقل مرتبہ غسل میں یہ بات ہے کہ کچھ قطرات ٹپکیں۔ اس تقدیر پر اگر کسی نے برف کے ڈلے کو منہ یا اور اعضاء پر وضو میں پھرایا۔ پس اگر ہوا کی گرمی یا جسم کی گرمی سے برف پگھل کر ٹپکے تو وضو ہوگیا ورنہ نہیں۔ آیت میں دو بار یا تین بار دھونے کی کوئی قید نہیں بلکہ باعتبار معنی لغوی کے ایک بار بھی اعضائِ وضو کو دھو وے گا تو وہ وضو ہوجاوے گا اور اسی لئے بخاری اور ترمذی اور ابن ماجہ اور نسائی اور ابو دائود نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے وضو میں اعضاء کو گاہے صرف ایک بار بھی دھو کر یہ بتلا دیا ہے کہ اس قدر وضو میں فرض ہے۔ وجہ جو مواجہۃ سے لیا گیا ہے جس کے معنی سامنے کے ہیں ٗ منہ کو کہتے ہیں یعنی ماتھے کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی تک اور دونوں کانوں تک اس لئے آنکھ کے اندر پانی پہنچانا جمہور کے نزدیک کچھ ضرور نہیں۔ الاعند ابن عباس ؓ اور اسی طرح کان اور ڈاڑھی کے درمیان جو خالی جگہ ہے وہ بھی منہ شمار ہے اس کا دھونا بھی جمہور کے نزدیک فرض مگر امام ابو یوسف کہتے ہیں وہ منہ نہیں اس کا دھونا بھی کچھ ضرور نہیں۔ اسی طرح جس کی ہلکی ڈاڑھی ہو اس کو بالوں کی جڑ تک پانی پہنچانا ضرور نہیں کیونکہ بجائے جلد کے بال ہیں۔ صرف ان کا دھونا کافی ہے۔ شافعی (رح) کہتے ہیں چونکہ بال ہلکے ہیں۔ جڑوں میں پانی پہنچانا چاہیے مگر گھنی ڈاڑھی میں بالاتفاق بالوں کی جڑ دھونا ضرور نہیں۔ ہاں خلال کرنا مستحب ہے جیسا کہ ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے کان النبی ﷺ یخلل لحیتہ اور جس قدر ڈاڑھی نیچے لٹکی ہوئی ہے اور جو کانوں سے اوپر تک اٹھی ہوئی ہے آیا اس کا دھونا بھی واجب ہے کہ نہیں ؟ امام ابوحنیفہ اور مالک فرماتے ہیں نہیں کیونکہ اس پر وجہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں واجب ہے مگر اس حدیث سے کہ جس کو مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔ دھونا مستحب ہے۔ وضو کا دوسرا فرض : وایدیکم الی المرافق یہ وضو کا دوسرا فرض ہے یعنی دونوں ہاتھوں کا مرافق ( جمع مرفق اعنی کہنی) تک دھونا فرض جمہور کے نزدیک کہنیوں کو بھی دھونا چاہیے۔ امام مالک اور امام زفر فرماتے ہیں اللہ نے کہنیوں تک فرمایا۔ کہنیین اس میں شامل نہیں۔ جمہور کہتے ہیں اس مقام پر مابعد اور ماقبل الی کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے غایۃً مغیا میں داخل ہے۔ آیت میں اس کی بھی کچھ تشریح نہیں کہ پہلے دائیں ہاتھ کو دھوئے یا بائیں کو مگر مسنون یوں ہے کہ اول دائیں کو پھر بائیں کو دھوئے اور پہنچوں سے دھوتا ہوا کہنیوں تک آوے نہ کہ کہنی سے پانی ڈال کر پہنچوں تک پہنچاوے کیونکہ یہ مکروہ خلاف حدیث ہے۔ اس لئے بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ درست نہ ہوگا۔ وضو کا تیسرا فرض : وامسحوا برئو سکم یہ تیسرا فرض وضو کا ہے مسح کہتے ہیں ہاتھ تر کرکے کسی چیز پر لگانا اور لغت میں عموماً چھونا۔ اس آیت میں کچھ تصریح نہیں کہ آدھے سر کا مسح کرے یا کل کا یا چوتھائی کا۔ اس لئے علمائے کرام و مجتہدین عظام کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) و امام شافعی (رح) اور اکثر علماء کے نزدیک کل سر کا مسح کرنا ضرور نہیں۔ کس لئے کہ اول تو برؤسکم میں ب بعضیت کا فائدہ دیتی ہے۔ بولتے ہیں مسحت یدی بالمندیل کہ میں نے اپنے ہاتھوں کو رومال سے مسح کیا۔ اس میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ تمام رومال کا مسح کیا ہو بلکہ اس کے بعض اجزاء کے مسح پر بھی یہ قول صادق آسکتا ہے۔ دوم اگر ب کو زائدہ بھی تسلیم کر لیویں تب باعتبار عرفِ اہل زبان کے تمام سر کا مسح کرنا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ مسح مطلق ہے۔ پھر امام شافعی (رح) نے اس کو مطلق ہی رکھا ہے حتٰی کہ اگر سر کے چند بالوں کا مسح بھی کرلے گا تو جائز ہوگا مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے اس کو ان احادیث سے جو مسح بعض راس کے لئے آئی ہیں چوتھائی سر مراد لیا ہے اور امام مالک (رح) نے اپنے قرائن اور ان احادیث سے کہ جن میں تمام سر کا مسح کرنا پایا گیا ہے کل سر کا مسح کرنا مراد لیا ہے۔ احادیث صحیحہ میں کل سر کا مسح کرنا بھی آیا ہے اور بعض کا بھی۔ گرچہ یہ بحث علماء کی فرضیت میں تھی مگر سب کے نزدیک تمام سر کا مسح کرنا مسنون اور احوط ہے۔ اوزاعی اور ثوری اور امام احمد (رح) کے نزدیک اگر بجائے سر کے کوئی عمامہ پر بھی مسح کرلے گا تو درست ہوگا کیونکہ نبی ﷺ نے بعض اوقات ایسا کیا ہے جیسا کہ عمرو بن امیہ ضمیری اور بلال اور مغیرہ بن شعبہ اور سلمان اور ثوبان رضوان اللہ علیہم سے روایات آئی ہیں جن کو بخاری اور احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے مگر امام شافعی اور ابوحنیفہ اور اکثر علما کے نزدیک یہ کافی نہ ہوگا اور آنحضرت ﷺ کا یہ فعل اس بات پر محمول ہوگا کہ آپ نے عمامہ کو ہاتھ سے اٹھا کر سر کا مسح کیا۔ راوی نے یہی سمجھ لیا کہ صرف عمامہ پر مسح کیا۔ دیکھو صحیحین میں مغیرہ بن شعبہ ؓ سے یوں منقول ہے۔ ان النبی ﷺ توضا فمسح بنا صیۃ وعلی العمامۃ الخ 1 ؎ اور نیز قرآن میں سر کا مسح کرنا مشرح ہوچکا ہے نہ کہ عمامہ کا اور نیز وہ صحیح احادیث کہ جن میں اس بات کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وضو کرکے دکھایا اور فرما دیا کہ اس طرح کے وضو بغیر خدا نماز قبول نہیں کرتا۔ ان میں سر کا مسح کرنا پایا گیا ہے۔: امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ گردن بھی سر میں شمار ہوتی ہے۔ اس پر بھی مسح کرنا مستحب ہے جیسا کہ کانوں کا اور مسح رقبہ میں چند احادیث بھی وارد ہیں۔ وضو کا چوتھا فرض : وارجلکم الی الکعبین چوتھا فرض وضو کا ہے یعنی ٹخنوں تک پائوں دھونا۔ ارجل رجل کی جمع ہے جس کے معنی پائوں کے ہیں اور کعب ٹخنے کو کہتے ہیں۔ کعب کے لغت میں معنی بلندی اور ارتفاع یا ابھار کے ہیں اور اسی لئے عرب میں ان عورتوں کو کہ جن کے سینے ابھرے ہوئے ہوتے تھے کو اعب کہتے ہیں۔ اس لئے پائوں میں جو دونوں طرف ابھری ہوئی ہڈی دکھائی دیتی ہیں ان کو کعبین کہتے ہیں۔ جمہور اہل لغت کا یہی قول ہے مگر شیعہ امامیہ کے نزدیک کعب اس گول ہڈی کو کہتے ہیں کہ جس پر پنڈلی کی ہڈی آن کر جڑی ہے۔ وہ ٹخنے سے نیچے کی طرف کسی قدر اسی جانب میں یعنی اندر کے رخ ایک چھوٹی سی ہڈی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کعب جوڑ کو کہتے ہیں اور اسی لئے عرب اونٹ کے مفاصل کو کعوب کہا کرتے ہیں اور محمد بن حسن رحمۃ اللہ کا بھی یہی قول ہے اور اصمعی بھی اس کو پسند کرتے تھے مگر کعبین صیغہ تثنیہ تو یہ چاہتا ہے کہ ہر پائوں میں دو کعب ہوں۔ سو یہ بات صرف ٹخنوں پر صادق آسکتی ہے نہ کہ شیعہ کی ہڈی پر کیونکہ ہر پائوں میں ایک ہے۔ علاوہ اس کے اہل زبان خصوصاً وہ لوگ کہ جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا ہے کعبین ٹخنوں کو کہتے تھے۔ ارجلکم کو نافع وابن عامر و حفص و کسائی ویعقوب اور اعمش نے بالنصب پڑھا ہے اور حسن بصری کی بھی یہی قرأت ہے اس لئے ارجلکم کا عطف وجوہکم وایدیکم پر ہوگا جس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ اپنے پائوں بھی ٹخنوں تک دھوئو۔ جیسا کہ جمہور اہل اسلام کا قول ہے اور جس پر تمام صحابہ و اہل بیت کا عمل رہا ہے اور جس کے بارے میں بہت احادیث آئی ہیں۔ منجملہ ان کے یہ ہے ” عن عبداللہ بن عمر قال تخلف عنا رسول اللہ ﷺ فی سفرہ فادرکناہ وقدارھقنا العصر فجعلنا نتوضاء ونمسح علی ارجلنا قال فنادی باعلی صوتہ ویل للاعقاب من النار مرتین او ثلاثاً متفق علیہ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ سو ہم آپ سے آملے اور عصر کا وقت تنگ ہوگیا تھا ٗ ہم وضو کرکے پائوں پر مسح کرنے لگے۔ تب آپ ﷺ نے بآواز بلند پکار کر فرمایا کہ ایڑیوں کو عذاب نار کی خرابی ہے۔ دو بار یا تین بار فرمایا۔ از انجملہ یہ ہے عن ابی ہریرہ ان النبی ﷺ رای رجلا لم یغسل عقبہ فقال ویل للاعقاب من النار رواہ مسلم کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے وضو میں اپنی ایڑی کو نہیں دھویا۔ تب اس کے لئے فرمایا کہ آگ کا عذاب ہے۔ اسی طرح اور 1 ؎ نبی ﷺ نے وضو کرکے اپنے ماتھے اور عمامہ پر مسح کیا۔ 12 منہ بہت سی صحیح احادیث پائوں کے دھونے کے لئے وارد ہیں اور ابن کثیر و ابو عمرو و حمزہ نے ارجلکم کے لام کو بالکسر پڑھا ہے۔ باقاعدہ جر جوار اور شعرائِ عرب کے کلام میں اور نیز قرآن میں متعدد جگہ جرِجوار پایا جاتا ہے جیسا کہ سورة ہود میں ہے عذاب یوم محیط اور سورة واقعہ میں ہے حورعین اور عرب کہا کرتے ہیں (حجر ضب حزب) جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کا رئوسکم پر عطف نہیں بلکہ رئوسکم قریب ہونے کی وجہ سے جر میں شریک ہے نہ کہ مسح کرنے میں علاوہ اس کے مسح میں کوئی حد نہیں بخلاف غسل کے اور پائوں میں الی الکعبین کی حد لگا دی گئی ہے لیکن شیعہ امامیہ اس کو رئوسکم پر معطوف سمجھ کر سر کی طرح پائوں کا بھی وضو میں بجائے غسل کے مسح کرنا فرض بتلاتے ہیں اور اپنے اس قول پر کچھ دلائل بھی پیش کرتے ہیں کہ جن کے نقل کرکے جواب دینے کی یہاں گنجائش نہیں مگر اس بات کو تو شاید منصفین امامیہ بھی تسلیم کرتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے جو وضو میں اعضاء کا دھونا فرمایا ہے صرف پاکیزگی اور دفع کثافت کے لئے جو بارگاہ کبریائی میں بوقتِ مناجات روح پر تازگی پہنچانے کا ایک فطری سبب ہے اور بہ نسبت ہاتھ منہ کے پائوں زیادہ تر زمین پر ٹکتے ہیں کہ جہاں نجاست و کثافت کا محل و موقع ہے۔ پھر کیا وجہ کہ پائوں جیسے عضو خسیس کو سر جیسے عضو رئیس کے برابر کیا جائے اور دونوں کو مسح کا حکم دیا جائے ؟ حالانکہ سر بیشتر نجاسات و کثافات سے محفوظ رہتا ہے۔ سر پائوں کو یکساں سمجھنا بےسروپا بات ہے۔ علاوہ اس کے غسل تو مسح سے بھی بڑھ کر ہے اور اس کا کام بھی دے سکتا ہے۔ برخلاف مسح کے پھر احتیاط تو غسل ہی میں ہے۔ یہ وضو کے چار فرض تھے جن کا بیان ہوا۔ باقی نیت کرنا اور مسواک کرنا اور تین بار ہر عضو کا دھونا اور داہنی طرف سے شروع کرنا اور ترتیب کو ملحوظ رکھنا کہ اول ہاتھ پھر منہ الخ اور بغیر خشک ہونے ایک عضو کے دوسرے کو دھونا جس کو توالی کہتے ہیں اور سب سے اول ہاتھ پہنچوں تک دھونا پھر کلی مسواک کرنا پھر ناک میں پانی ڈالنا۔ اس کے بعد منہ دھو کر وضو اخیر تک تمام کرنا یہ سب باتیں پیغمبر ﷺ کے قول و فعل سے ثابت ہیں جو سنت و مستحب شمار ہوتی ہیں جن میں صدہا اسرار روحانی 1 ؎ رکھے ہوئے ہیں۔ اب کوئی ان چیزوں میں سے کسی کو آنحضرت ﷺ کی مواظبت یا آیت میں استنباط و خوض سے واجب و فرض بھی کہہ دیتا ہے اور یہی وجہ ان جزئیات میں اختلاف کی ہے ورنہ اصل میں کچھ اختلاف نہیں اور جبکہ اسلامیوں نے اپنے پیارے اور برحق پیغمبر ﷺ کی ہر ایک بات کا اتباع کرنا چاہا اور ہر ایک بات کی تہ کو پہنچنے کا قصد کیا اور قرآن میں جو باتیں مطلقاً تھیں ان کی تحدید و تعین کرنی پڑی تو ایسی صورت میں ان جزئیات میں اختلاف رائے ہونا ایک ضروری بات تھی کوئی بات ہو جب اس میں موشگافی کی جائے گی اختلافِ آراء ہوگا سو یہ کچھ باعث نقصان ملت نہیں بلکہ علماء کے کمال علم کی دلیل ہے جب خدا تعالیٰ طہارت صغریٰ یعنی وضو کے بیان سے فارغ ہوچکا تو طہارت کبریٰ یعنی غسل اور یہ نہ ہو سکے تو تیمم کا بیان فرماتا ہے۔ غسل اور تیمم کا بیان : وان کنتم جنبا فاطہروا۔ اس آیت میں جنابت والے کے لئے طہارت یعنی غسل کا حکم دیتا ہے کہ جس کی شرح قولاً و عملاً نبی ﷺ نے بیان فرما دی کہ پہلے نجاست دھوئے پھر وضو کرکے تین بار تمام جسم پر پانی بہاوے اور پائوں بعد میں وہاں سے اٹھ کر دھوئے۔ اگر جگہ اچھی نہیں اور جس عورت کے بال ایسے گندھے ہوئے ہوں کہ ان کے کھولنے میں دقت ہو تو صرف بالوں کے اوپر ہی سے پانی ڈال دینا کافی ہے۔ بالوں کی جڑ تر کرنی ضرور نہیں۔ یہ بیان صحاح ستہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) لفظ فاطہروا سے جس میں تاکید طہارت پائی جاتی ہے۔ غسل میں کلی کرنا ‘ ناک میں پانی دینا بھی ضروری تصور کرتے ہیں۔ جنابت کہ جس پر غسل کرنا واجب ہے دو 1 ؎ ازانجملہ ترتیب وضو میں یہ بھی حکمت ملحوظ ہے کہ اول ہاتھوں پر پانی ڈالنے سے حاروبارد معلوم ہوجاتا ہے۔ پھر کلی کرنے سے اس کا مزہ اور کیفیت معلوم ہوجاتی ہے۔ پھر ناک میں پانی لینے سے اس کی بو بھی معلوم ہوجاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس پانی کی طہارت بلکہ اس کا مضر و نافع ہونا بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو منہ پر ڈالا جاتا ہے اور وضو کیا جاتا ہے۔ اگر دفعتاً منہ دھونے کا حکم ہوتا تو یہ بات معلوم نہ ہوتی۔ علاوہ اس کے اسی ترتیب سے یہ اعضاء استعمال میں لائے جاتے ہیں جن کو اسی کے موافق کثافت اٹھانی پڑتی ہے جس کا ازالہ وضو میں کیا جاتا ہے۔ 12 باتوں سے پائی جاتی ہے۔ اول یہ کہ احتلام ہو کر خواب میں منی برآمد ہو جس کا اثر کپڑے یا بدن پر معلوم ہو جیسا کہ حدیث (انما الماء بالمائ) سے ثابت ہے۔ دوم یہ کہ عورت سے صحبت کی جاوے خواہ انزال ہو یا نہ ہو جیسا کہ حدیث (اذا التقی الختانان واجب الغسل) سے ثابت ہے۔ جمہور کا یہی مذہب ہے مگر زید بن ثابت و معاذ و ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ بغیر انزال کے غسل واجب نہیں۔ اس کے بعد وضو اور غسل کے قائم مقام بوقت ضرورت تیمم کا حکم دیتا ہے۔ وان کنتم مرضیٰ الخ جمہور صحابہ کے نزدیک تیمم نہ صرف اس کے لئے جائز ہے کہ جو وضو پر قادر نہیں بلکہ حالت جنابت میں جو مرض یا پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل پر قادر نہ ہو اس کو بھی تیمم درست ہے۔ جیسا کہ حدیث عمران بن حصین ؓ وغیرہ سے ثابت ہے (صحیحین) مگر عمر بن مسعود اور حضرت عمر ؓ ابتداء میں جنبی کے لئے تیمم کافی نہیں سمجھتے تھے۔ پھر اس سے رجوع کیا اس کے بعد یرید اللّٰہ بکم الیسر الخ سے اپنے احکام میں رحمت و طہارت روحانی و جسمانی اور دیگر فوائد مرعی رکھنے کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔
Top