Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
(اے نبی ! ) ان سے کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہو کہ جو نہ تمہیں ضرر دے سکتی ہیں نہ کچھ نفع۔ حالانکہ اللہ ہی سنتا جانتا ہے
ترکیب : مالا یملک مانکرہ موصوفہ یا بمعنی الذی مفعول تعبدون لا تغلوا فعل لازم ہے اور غیر الحق صفت ہے مصدر محذوف کی اے غلو غیر الحق اور جائز ہے کہ حال ہو ضمیر فاعل سے ای لاتغلوا مجاوزین الحق من بنی اسرائیل حال ہے الذین کفروا سے علی لسان داؤد متعلق ہے لعنوا سے۔ تفسیر : اب ایک اور دلیل یہود و نصاریٰ و مشرکین کے مقابلہ میں ایسی ذکر فرماتا ہے کہ جس سے اللہ کے سوا تمام چیزوں کا معبود ہونا باطل ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ معبود وہ ہونا چاہیے جو نفع و ضرر کا مالک ہو اور یہی بات ہے کہ جس سے کسی کی عبادت اور اطاعت کی جاتی ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) اور مشرکین کے فرضی خدا نہ کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ ضرر کیونکہ جب وہ اپنے ضرر کو دفع نہیں کرسکے (مسیح نے بقول نصاریٰ صلیب پر چیخ چیخ کر جان دی اور ایلی ایلی پکارا کئے) تو اور کا ضرر کیا دفع کریں گے۔ قل اتعبدون سے ھوالسمیع العلیم تک اس دلیل کی طرف اشارہ ہے۔ پھر اہل کتاب سے خطاب کرتا ہے کہ تم اپنے دین میں غلو یعنی زیادتی نہ کرو اور اپنے سے پہلے گمراہ قوموں کی پیروی نہ کرو جو خود بھی گمراہ ہو چکیں اور لوگوں کو گمراہ کرتی تھیں جیسا کہ حور بابل اور نینوا کے بت پرست اور دراصل انہیں قوموں کے رسم و رواج نے اہل کتاب کو تباہ کیا۔ ادھر یونان اور روم کی بت پرست قوموں کی صحبت نے عیسائیوں کو خراب کیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے اوپر جو انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے پھٹکار پڑی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی ان یہود پر لعنت ہوئی کہ جو مائدہ کا معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے یعنی حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک یہ حالت تھی کہ نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والے اور جس برے کام کو کرتے تھے لایتناھون (تفاعل من النہی اے لاینھی بعضہم بعضاً ) کہ ایک دوسرے کو منع نہ کرتا تھا (یا بمعنی الانتہٰی) کہ اس میں کمی نہ کرتے تھے۔ پھر جب ان کی اس عہد میں یہ کیفیت تھی تو اب نبی آخر الزماں کے عہد میں تو جس قدر سرکش اور بدباطن یہ قوم ہوگئی تھی ظاہر ہے۔
Top