Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب وہ چیز سنتے ہیں کہ جو رسول پر نازل ہوئی تو (اے مخاطب ! ) تو ان کی آنکھوں کو آنسو بہاتے دیکھے گا۔ حق شناسی کی وجہ سے (اور وہ) دعا بھی کرتے ہیں کہ اے رب ہم ایمان لائے ٗ ہم کو بھی گواہوں میں لکھ رکھ
ترکیب : ان سخط ان بتاویل مصدر خبر ہے مبتداء محذوف کی جو ھو ہے اور ممکن ہے کہ یہ بدل ہو ما قدمت کا جو محلاً منصوب ہوگا وھذا رجح ما اتخذوھم جواب ہے ولو کانوا یؤمنون کا ‘ عداوۃ منصوب ہے بوجہ تمیز ہونے کے اشد سے ‘ للذین آمنوا متعلق ہے عداوۃ سے ‘ الیہود معطوف علیہ والذین اشرکوا معطوف مجموعہ مفعول ہے لتجدن کا ‘ للذین متعلق ہے مودۃ سے ‘ الذین قالوا انا نصریٰ جملہ مفعول ثانی ہے لتجدن کا ‘ بان ثابت کے متعلق ہو کر خبر ہے ذلک کی ‘ واذا اسمعوا معطوف ہے خبر ان پر جو لایستکبرون ہے اور ممکن ہے کہ جملہ مستانفہ ہو گو معنیً اس کو ماسبق سے علاقہ ہو۔ تری کو اگر رویۃً عین سے لیا جاوے تو تفیض حال ہوگا ونطمع حال عاملہ حال الحال الاولی ولکن مقید بالحال الاولی بتقدیر نحن او عطف علی نؤمن او حال من فاعل لا نؤمن۔ تفسیر : جب کہ خدا تعالیٰ یہود کے اسلاف کا حال بیان کرچکا تو اب خود ان کا حال بیان کرتا ہے۔ وہ یہ کہ تریٰ کثیرا منہم مدینہ کے یہود کعب بن اشرف وغیرہ مشرکین عرب کو جوش دلا کر اسلام کے مقابلہ میں ابھارتے تھے اور باوجود یکہ توحید اور اقرار نبوت موسیٰ اور تصدیق توریت میں اسلام ان کا ہم زبان تھا مگر اپنی خبث باطنی سے ان کے مقابلہ میں مشرکین عرب سے یاری کرتے تھے پھر فرماتا ہے کہ اگر وہ اپنے نبی پر بھی بصدق دل ایمان لاتے تو ہرگز ایسا نہ کرتے۔ اس کے بعد یہودو نصاریٰ کا اس امر میں فرق بیان کرتا ہے لتجدن اشد الناس کہ اگرچہ یہود سے نصاریٰ کا کفر بڑھ کر ہے (کیونکہ یہود سے تو صرف نبوت میں کلام ہے مگر نصاریٰ تو آدمی کو خدا کہتے ہیں) لیکن با این ہمہ ان میں ایک قسم کی خدا ترسی اور خوف آخرت اور دنیا سے نفرت پائی جاتی ہے کیونکہ ان میں قسیس و رہبان بھی ہیں جو نہایت نرم دل ہوتے ہیں اور یہود میں سراسر حبِّ جاہ ہے جو تمام سخت دلیوں اور عداوتوں کا سرچشمہ ہے۔ پس اسلام کا سب سے سخت تر دشمن اے نبی علیک السلام آپ یہود کو پاویں گے اور کافروں میں نرم اور رحم دل اسلام کے لئے عیسائیوں کو پاویں گے۔ پھر آگے ان عیسائیوں کی رحم دلی اور خدا ترسی کا ذکر فرماتا ہے کہ جب وہ کلام الٰہی سنتے ہیں تو حق جان کر رونے لگتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم کو بھی نیک لوگوں کی جماعت میں داخل کر دے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ ان کے لئے ثوابِ آخرت ‘ جنت کا وعدہ اور تکذیب و کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کی سزا ذکر کرتا ہے۔ جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اذا سمعوا سے آخر تک عام عیسائیوں کے حق میں نہیں بلکہ نجاشی اور اس کے متبعین کے حق میں ہے۔ پس جب یہ ہے تو لتجدن الخ اسلام کی نسبت رحمدل اور بامروت ہونا بھی انہیں کے حق میں ہے کیونکہ سب کلام متصل ہے۔ یہ بات بھی یقین کرنے کے قابل ہے کہ مذہب عیسوی میں رحمدلی اور نرمی کا ایک بڑا بھاری حصہ ہے۔ مذہب کی پابندی کے لحاظ سے عیسائیوں کے نزدیک محمدیوں کا برا کہنا بھی جائز نہیں۔ چہ جائیکہ ان کو ستانا اور ان سے عداوت رکھنا۔ کس لئے کہ اسلام میں حضرت عیسیٰ ؓ پر ادب سے ایمان لانے کی اور حواریوں کی تعظیم کی اور انجیل شریف کے تصدیق کی نہایت تاکید ہے اور عیسائیوں کے نزدیک مسیح پر ایمان لانے والامستحق نجات ہے اور اس سے برادرانہ برتائو کرنا لازم ہے۔ ہاں جو لوگ کہ برائے نام عیسائی ہیں اور پورے ملحد ہیں یا وہ مسلمانوں سے مقابلہ کرتے کرتے سخت دل ہوگئے ہیں جیسا کہ پادریان حال البتہ وہ تو مسلمانوں سے بجائے مودت کے عداوت اور سختی برتتے ہیں۔ یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے صلاح الدین مصری کے عہد میں جب کہ عیسائیوں نے متفق ہو کر بیت المقدس چھڑانے کے لئے مسلمانوں سے برسوں تک سخت خونخوار لڑائیاں کیں اور ایک بار باوجودامن مانگنے کے ہزاروں مرد و زن اسلام کو نہایت بےرحمی سے قتل کیا۔ اس معرکہ کو حرب الصلیب 1 ؎ کہتے ہیں۔ یہ لڑائی مدتوں تک رہی تھی۔ کتب تواریخ میں اس کا مفصل ذکر ہے مگر ان کے برخلاف جب صلاح الدین نے بیت المقدس کو پھر واپس لیا تو کسی عیسائی کو ایذا تک نہیں دی بلکہ جو لڑنے کو جمع ہو کر آئے تھے ان کے زخمیوں کے علاج کئے۔ ان کو ضرورت کی چیزیں عطا کیں اور اس سے بڑھ کر جو عیسائیوں کی سخت دلی اور مسلمانوں پر بےحد ظلم اور زیادتی دیکھنی منظور ہو تو وہ سپین یعنی اندلس کے اس معرکہ کو دیکھے جب کہ عیسائیوں نے پادریوں کی ہدایت سے اندلس کے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو مغلوب کیا اور اس کے بعد ایک حکم نامہ جاری کیا کہ جو عیسائی ہوجاوے گا تو امن پائے گا ورنہ قتل کیا جائے گا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا ہزاروں مرد و زن مسلمان بھوک اور پیاس اور سردی کے مارے بن آئی مرگئے جو کہ عیسائیوں کی تلوار سے بچے تھے سینکڑوں گھروں کو مع اس کے مکان کے آگ لگا دی گئی۔ 1 ؎ حضرت عمر ؓ کے عہد سے اور شلیم اور بیت المقدس اہل اسلام کے قبضہ میں چلا آتا تھا، پھر پطرس (پیٹر) راہب کی اشتعالک سے یورپ کے بادشاہوں نے جمع ہو کر دسویں صدی عیسوی میں بیت المقدس پر حملہ کیا اور شہر کو لے لیا اور چالیس ہزار مسلمانوں کو جن میں بچے اور بیمار ‘ عورتیں اور بڈھے بھی تھے سب کو بےرحمی سے قتل کیا۔ (کتاب جان ڈیون پورٹ مطبوعہ 1870 ء صفحہ 103) مگر 1188 ء میں جب صلاح الدین مصری نے یہ شہر واپس لیا تو کسی کے ساتھ بدسلوکی نہ کی بلکہ آسائش دی۔ یہ لڑائی تخمینا دو سو برس اہل اسلام اور اہل یورپ عیسائیوں میں رہی۔ 12 منہ سینکڑوں عورتوں کو بےعزت کرکے سپاہیوں نے قتل کیا۔ ہزاروں معصوم بچوں کے خون سے ان کے ماں باپ کے روبرو اپنے ہتھیاروں کو سرخ کیا۔ بوڑھے سے لے کر جوان تک بیمار سے تندرست تک کون تھا کہ جس پر ظلم کی تلوار نہ دھری گئی ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سینکڑوں برسوں کے رہنے والے مسلمانوں کو یکلخت ملک سے بدر 1 ؎ کردیا۔ مقابر و مساجد کو گرا دیا۔ اس کے برخلاف اہل اسلام نے اپنے علماء کی ہدایت سے آج تک کسی ہندو یا عیسائی یا موسائی کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ صرف ایک حد تک جنگ قائم رکھی جس میں بچے اور عورتیں مستثنیٰ تھیں اور امن کے بعد یا اسلام یا اطاعت ظاہر کرنے کے بعد کسی کو بھی کچھ مضرت نہیں دی گئی۔ جس پر مسلمانوں کے مذہب کو ہلاکو اور سفاک اور بےرحم اور لڑاکا اور بدخو اور ٹَرَّاکہتے ہیں۔ بغور نظر کی جاتی ہے تو آیات مذکورہ میں عیسائیوں کے ایک خاص گروہ کی یہ مدح ہے جس سے مفسرین نے نجاشی اور اس کی قوم مراد لی ہے۔ مکہ معظمہ میں جب مشرکوں کے ہاتھوں سے اہل اسلام پر نہایت سختی پہنچنی شروع ہوئی کہ کوئی دھوپ میں ڈال کر کوڑوں سے پیٹا جاتا ہے ‘ کسی کو قتل کیا جاتا ہے ‘ کسی کو زخم لگائے جاتے ہیں ٗ گوشت کاٹا جاتا ہے یہاں تک عمار بن یاسر ؓ اور ان کے والدین کو عذاب دیا جا رہا تھا کہ اتنے میں ابو جہل بھی آنکلا۔ اس بدبخت نے سمیۃ والدہ عمار کی پیشاب گاہ میں نیزہ ایسا چلایا کہ وہ شہید ہوگئیں۔ ایسی حالت میں 82 ایماندار کہ جن میں تیرہ عورتیں اور باقی مرد حضرت عمر بن الخطاب و جعفر بن ابی طالب وغیرہ تھے دریائِ قلزم پار اتر کر ملک حبشہ میں ہجرت کر گئے۔ اس ملک کا بادشاہ اصحمہ نام نجاشی لقب عیسائی مذہب کلیسا افریقہ کے عقائد کا آدمی تھا۔ وہ یا تو ان اناجیل سے کہ جن کا اب عیسائیوں میں مفقود ہونا مسلم ہے جیسا کہ متی کی عبرانی انجیل یا انہیں اناجیل میں اس وقت تک لفظ احمد میں تغیر نہ ہوا ہوگا فارقلیط و معین وکیل جواب بنایا گیا ہے نہ بنایا گیا ہوگا اور صحائف کی وجہ سے وہ مدت پیشتر آنحضرت ﷺ کے ظاہر ہونے کا منتظر تھا اور مجملاً یہ جانتا تھا کہ یہ اخیر نبی عرب کے قبائل سے مبعوث ہوگا اس بات کی طرف اس کے کان لگے ہوئے تھے کہ صحابہ کی یہ جماعت اس کے ملک اور اس کے خاص شہر میں تاجروں کی ہوائی کشتیوں پر سوار ہو کر پہنچی اور ان کے بعد میں کفار قریش نے نجاشی کے لئے ہدیہ اور خط دے کر عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو بھیجا کہ یہ جماعت نئے مذہب کی پیدا ہوئی ہے۔ یہ لوگ مسیح کو خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ کہتے ہیں ٗ ان کو مقید کرکے ہمارے پاس واپس بھیج دیجئے تاکہ یہ آپ کے ملک میں شورش نہ برپا کریں۔ اس مراسلہ کے بعد نجاشی نے اپنے اراکین سلطنت و علماء و فضلا کی ایک مجلس قائم کی اور اس جماعت صحابہ کو بھی ان دونوں ایلچیوں کے روبرو طلب کرکے مسلمانوں سے پوچھا کہ تم میں سے اپنے نبی کا زیادہ قرابت دار کون ہے ؟ حضرت جعفر طیار ؓ نے فرمایا ٗ میں ہوں۔ نجاشی نے آنحضرت ﷺ کا تمام حال استفسار کیا۔ مہاجرین پر ظلم و ستم کا برپا ہونا بھی معلوم کیا۔ اس کے بعد پوچھا کہ محمد ﷺ نبی پر کوئی آسمان سے کتاب بھی نازل ہوتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ کہا کچھ پڑھ کر سنائو (چونکہ عرب و حبش میں چنداں فاصلہ نہیں اور نیز نجاشی عربی جانتا تھا۔ اس لئے باہم عربی میں تکلم ہوا کرتا تھا) جعفر طیار ؓ نے سورة مریم پڑھنی شروع کی۔ یہ پڑھتے جاتے تھے نجاشی اور ان کے ارکان دولت زار زار کلام الٰہی سن کر رقت سے روتے جاتے تھے اور یہ باتیں منہ سے کہتے تھے کہ جن کو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں 1 ؎ یہ ملک خلیفہ ولید شاہ دمشق کے سپہ سالار طارق غلام نے کہ جس کے نام سے جبل الطارق (انگریزی میں جبل الٹرا) مشہور ہے 79 ء میں فتح کیا اور عبدالرحمن بن معاذ بن ہشام بن عبدالملک بن مروان 139 ھ میں اس کا اول بادشاہ ہوا۔ قرطبہ اس ملک کا دارالسلطنت تھا جس میں ایک مسجد تھی کہ جس کے ہزار سے زیادہ ستون تھے۔ علامہ قرطبی اور ابن العربی وغیرہ ہزارہا علماء و فضلا اس ملک میں گذرے ہیں۔ یورپ کا نیا فلسفہ انہیں علمائِ اسلام کا ایجاد ہے۔ آخر یہ ملک یورپ کے حسن و دولت کا چشمہ اہل اسلام بادشاہوں کی نالائقی اور عیش پسندی اور ان کے کارپردازوں کی حماقت اور خودغرضی اور ملک والوں کے فسق و فجور کی شامت سے 1610 ء میں عیسائیوں کے ہاتھ آگیا۔ نقل فرمایا۔ پس نجاشی مسلمان ہوگیا اور حضرت کے پاس ہدیئے بھیجے اور صحابہ کی بڑی خاطر و تواضع کرتا رہا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔
Top