Tafseer-e-Haqqani - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
ابراہیم نے کہا اے رسولو ! تمہارا کیا مطلب ہے۔
ترکیب : الخطب الشان مسومہ ای معلمۃ بعلامات تعرف بھا قیل کانت مخططہ بسواد و بیاض صفۃ لحجارۃ اوحال من الضمیر المستکن فی الجار و المجرور و قیل معنی مسومۃ مرسلۃ من اسمت الماشیتہ ای ارسل تھا و فی موسیٰ فی عطفہ اقوال مختلفہ قیل انہ عطف علی قولہ تعالیٰ ۔ و ترکنا فیہا آیۃ و فی موسیٰ ایضاً ترکنا ایۃ اذ ارسلناہ الظرف متعلق بمحذوف و اذ منصوب بترکنا والاول اولیٰ برکـــنہ ای بقومہ ابن عباس ماتذر الجملہ حال مقدرۃ من الریح او خبر مبتداء محذوفھی وقوم نوح بالجر عطفا علی ماتقدم من قولہ و فی عاد و بالنصب علی تقدیر اھلکنا۔ تفسیر : اب ہم اس قصہ کو مع شرح الفاظ قرانیہ بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملک شام میں آرہے تھے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) جو ان کے بھتیجے تھے، وہ بھی ساتھ آئے تھے۔ پھر حضرت لوط ( علیہ السلام) سدوم و عمورہ وغیرہ بستیوں میں آرہے تھے جو جھیل مردار کے کنارہ آباد تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چھیاسی برس کی عمر میں ان سے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے، مگر سارہ [ بیوی کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اور وہ اسی امید میں بڑھیا ہوگئیں۔ اس بات کا ان کو بڑا غم رہتا تھا۔ ایک روز جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوپہر کے وقت مہمانوں کی صورت میں چند فرشتے نظر آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی عادت مہماں نوازی کے موافق ان کے کھانے کو تلا ہوا بچھڑا لائے۔ فرشتوں نے کھانے سے انکار کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ڈرے کہ یہ دشمن ہیں، کیونکہ اس عہد میں دشمن اپنے دشمن کے گھر کا کھانا نہیں کھاتا تھا۔ (یہ نمک حرامی اسی عہد میں مروج ہوئی ہے) ۔ فرشتوں نے کہا نہ ڈر اور اس کو علمدار لڑکے کی بشارت دی۔ (اسحاق ( علیہ السلام) کے تولد کی) حضرت سارہ ( علیہ السلام) پیچھے کھڑی تھیں۔ یہ سن کر ہنسیں، بڑی خوشی سن کر ہنسی آنا طبعی بات ہے۔ صرۃ کے معنی ہیں۔ آواز اور چیخنے کے مگر مراد کھل کھلا کر ہنسنا ہے، کیونکہ قرآن میں دوسری جگہ آیا ہے۔ ضحکت اور تعجب سے ماتھا کوٹنے لگیں اور کہنے لگیں کیا بانجھ اور وہ بھی بڑھیا جنے گی ؟ فرشتوں نے کہا خدا کا یہی حکم ہے۔ بانجھ اور بڑھیا کو بچہ دینے کی حکمت و تدابیر اس کو خوب معلوم ہے۔ پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے پوچھا کہ تم کدھر جاتے ہو انہوں نے کہہ دیا کہ لوط کی قوم کی طرف کہ ان پر پتھر برسادیں، چناچہ وہاں گئے اور وہ بستیاں ہلاک ہوئیں، اس کے بعد موسیٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے اس کو فرعون کے پاس دلیل دے کر بھیجا (تولیٰ برکنہ) التولی الاعراض الرکن الجانب (قالہ الاخفش) تو اس نے اعراض کیا اور کہہ دیا جادوگر ہے یا دیوانہ پھر خدا نے اس کو مع لشکر کے غرق کیا، اس کے بعد عاد وثمود و قوم نوح کی ہلاکی بیان کرتا ہے کہ ان بدکاریوں سے ہلاک ہوئے۔
Top