Tafseer-e-Haqqani - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا
تفسیر : لیکن صحابہ کی ایک جماعت کہ جن میں عبداللہ بن عباس ؓ ہیں اور اخیر عبداللہ بن عمر ؓ نے بھی اسی طرف رجوع کیا اور سلف و خلف میں سے اہل علم کی ایک جماعت ان کے تابع ہوئی ہے، خصوصاً صوفیہ کرام اس طرف ہیں۔ وہ یہ کہ فاستوی سے لے کر اخیر تک محمد ﷺ اور اللہ تعالیٰ کا باہم قریب ہونا اور دیکھنا مراد ہے اس تقدیر پر آیات کے یہ معنی ہوں گے۔ پس محمد ﷺ اپنی قوت یا رسالت میں حدِّ کمال کو پہنچے، یعنی ملکیت اور روحانیت کا ان پر غلبہ ہوا۔ یہ ہیں فاستوٰی کے معنی حالانکہ آپ اس وقت بشریت کے افق اعلیٰ پر تھے۔ بشریت کے دائرہ سے نکلنے کو تھے کہ روحانیت محضہ میں داخل ہوجائیں، پھر آپ اللہ تعالیٰ سے یہاں تک قریب ہوگئے کہ دونوں میں صرف دو قوسوں کا ہی فرق رہ گیا تھا، یعنی آپ میں قوس حدوث و امکان اور اللہ تعالیٰ میں قوس و جوب و قدم اتصال حقیقی اور اتحاد ذاتی سے مانع تھی، جب یہ تقرب ہوگیا تو اللہ نے اپنے بندے کو جو چاہا بتادیا۔ یہ ہے وحی کی حقیقت یعنی بندے میں اور خدا میں ایسا تقرب ہوتا ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔ اس وقت اللہ ہمکلام ہو کر اپنے بندے کو جو چاہتا ہے بتا دیتا ہے۔ علمہ شدید القوٰی سے اگر جبرئیل مراد لیے جائیں تو وہ وحی کی دوسری قسم تھی اور یہ وحی کی اول قسم ہے، پھر اے لوگو ! تم محمد ﷺ سے اس کی دیکھی ہوئی اس بات میں جھگڑتے ہو کہ جو اس کی آنکھ نے دیکھی جو نور الٰہی سے شرمگین تھی اور جو دل کا حکم رکھتی تھی۔ پھر ولقد راہ نزلۃ اخرٰی سے شب معراج میں آسمانوں پر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہونا بیان فرماتا ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کو باردیگر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ سدرہ جو جنت الماویٰ میں ہے وہ کوئی دنیا کا درخت نہیں، بیری وغیرہ کا وہ صوفیہ کرام کے نزدیک عبارت ہے روح اعظم سے کہ جس کے اوپر کوئی تعین اور مرتبہ نہیں اور اس کے اوپر بجز ہویت محضہ کے اور کچھ نہیں اور اس لیے اس کے پاس رویت واقع ہوئی، کیونکہ یہاں فنائِ محض سے بقاء کی طرف رجوع ہوا اور جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے وادی مبارکہ میں ایک درخت پر تجلی ہوئی تھی، اسی طرح آنحضرت ﷺ کو جنت الماویٰ میں جو وادی مبارکہ سے بدرجہا بڑھ کر ہے اس درخت کی صورت میں تجلی ہوئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے۔ آپ نے وجود حقانی میں متحقق ہو کر چشم حقیقت میں سے جس کے آگے کوئی چیز حاجب نہیں، خدا تعالیٰ کو عیاناً دیکھا۔ مازاغ البصر و ماطغٰی کے یہ معنی ہیں۔ مسلم و ترمذی وغیرہ نے روایت کی کہ محمد ﷺ نے اللہ کو دو بار دیکھا۔ احمد وغیرہ محدثین نے بسند صحیح اس بات کو ثابت کیا ہے اور اس کے خلاف میں بھی احادیث وارد ہیں۔ اثبات نبوت کے بعد توحید کے مسئلہ میں کلام کرتا ہے اور مشرکین عرب کی بت پرستی کی تحقیر کرتا ہے جو نبوت کا پہلا کام ہے۔ فقال افرایتم اللات والعزٰی الخ یہ تین بت عرب میں زیادہ پوجے جایا کرتے تھے۔ لات ایک شخص عرب میں حاجیوں کو ستو کھول کر پلایا کرتا تھا، اس کے مرنے کے بعد اس کی شکل پر ایک بت پوجنے لگے۔ یہ بت طائف میں تھا۔ بعض کہتے ہیں عکاظ میں، بعض کہتے ہیں نخلہ میں اور عزیٰ ایک درخت تھا جس کو غطفان کا قبیلہ پوجتا تھا۔ نبی ﷺ نے خالد بن ولید ؓ کو اس کے کاٹنے کو بھیجا تھا جو کاٹ ہی کر آئے، لوگوں میں اس کی بڑی ہیبت تھی اور منات ایک پتھر تھا۔ مکہ و مدینہ کے درمیان۔ فرماتا ہے بتاؤ یہ کیا چیز ہے ؟ اس کے سوا فرشتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر پوجتے تھے، ان کی نسبت فرماتا ہے تم کو خدا بیٹے دے اور آپ بیٹیاں لے، یہ کیا بھونڈی تقسیم ہے۔ پھر فرماتا ہے کچھ ان کی اصل نہیں تم نے نام گھڑ لیے ہیں۔ محض توہمات ہیں اور ان سے امید شفاعت رکھنا خام خیالی ہے۔ دنیا و آخرت اللہ ہی کے لیے ہے، کوئی وہاں اس کو سوا کام نہیں آتا۔
Top