Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 19
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ : اس نے چھوڑ دیا دو سمندروں کو يَلْتَقِيٰنِ : کہ دونوں باہم مل جائیں
اس نے دو دریا ملے جلے چلائے۔
ترکیب : المرج الارسال یقال مرجت الدابۃ اذا ارسل تھا یلتقیان حال و بینہما برزخ حال من الضمیر فی یلتقیان ولایبغیان حال ایضا یخرج قالوا التقدیر من احدھما الجواری جمع جاریۃ وھی السفن وحذفت الیاء المنشئات من انشأء اذا رفعہ المرفوعات وقریٔ بکسر الشین وفی البحر یتعلق بہ کالا علام جمع علم وھو الجبل الطویل۔ حال من الضمیر فی المنشئات۔ تفسیر : ان آیات میں دوسرے مسئلہ توحید کو ثابت کر رہا ہے مگر جہاں کہیں قرآن مجید میں اپنے دلائلِ قدرت و جبروت ذکر کر کے اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے دلائل میں وہی چیزیں بیان فرمائی ہیں کہ جو بندوں کے لیے انعام اور کارآمد چیزیں ہیں یہ اس لیے کہ انسانی جبلت انعام کی وجہ سے منعم کی طرف زیادہ راغب ہوتی ہے۔ ان آیات میں بھی وہی قاعدہ ملحوظ ہے۔ فقال مرج البحرین یلتقیان بینہما برزخ لایبغیان کہ اس قادر مطلق نے دو دریا رواں کئے جو ملے ہوئے چلتے ہیں اور باہم مختلط نہیں ہونے پاتے ان میں ایک قدرتی برزخ یعنی پردہ رکھا ہوا ہے جس سے دونوں باوجود اتصال کے خلط ملط نہیں ہونے پاتے۔ یہ دو دریا کس کے بس میں ہیں اور کس کی حکومت ان پر نافذ ہے ؟ اسی قادر مطلق کی۔ ان دو دریا سے کون سا دریا مراد ہے ؟ ابن جریج کہتے ہیں بحرشور یعنی سمندر اور زمین کی میٹھی ندیاں مراد ہیں جیسا کہ نیل ‘ جیحون ‘ دجلہ ‘ فرات گنگ وغیرہ جب یہ سمندر میں گرتے ہیں کوسوں تک دونوں پانی جدا جدا ممتاز معلوم ہوتے ہیں۔ دو دھاریں الگ معلوم ہوتی ہیں، رنگت میں بھی اور پانی کے میٹھے کھاری پنے میں بھی۔ بعض کہتے ہیں خود سمندر ہی کے مختلف ٹکڑے مراد ہیں بحر فارس و روم وغیرہ۔ بعض محققین کہتے ہیں لفظ میں تعمیم سے یہ بھی مراد ہیں اور ان کے ساتھ اور بھی دریا مراد ہیں جیسا کہ دریائے ملکیت و بہیمیت جو ایک میٹھا اور ایک کھاری ہے۔ انسان کے اندر ملے ہوئے چلتے ہیں اور مختلط ہونے نہیں پاتے اور ان سے بعد تہذیب و شائستگی حاصل کرنے کے عمدہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن کو موتی اور مونگا کہنا چاہیے اور اسی طرح انسان کی ہر متضاد قوتیں مراد ہوسکتی ہیں جن کے دریا اس کے اندر ملے ہوئے چلتے ہیں۔ موتی سیپ میں پیدا ہوتا ہے اور مونگا ایک قسم کا پتھر ہے جو درخت کی طرح شاخیں نمودار کرتا ہے وہ بھی سمندر سے برآمد ہوتا ہے۔ موتی سفید یہ سرخ کیا قدرت ہے ؟ یہ تو تھا ہی اور قدرت کا تماشا دیکھو ولہ الجوارالمنشئات فی البحر کالاعلام۔ کہ بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز اور آگبوٹ پہاڑ جیسے سمندر میں کھڑے ہیں، پانی کی طبیعت تھی کہ ڈوب جائیں مگر وہ قادر مطلق نہیں ڈوبنے دیتا اس کے سامان پیدا کر کے ان کو سمندر میں ایسا دوڑاتا پھرتا ہے کہ جس طرح زمین پر گھوڑے دوڑتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک اپنی قدرت و جبروت عناصر پر ثابت کی کہ جن کو اوہام پرستوں نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ہنود آگ اور پانی کی پرستش کرتے ہیں اور پانی کی مایہ بتاتے ہیں۔
Top