Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے
ترکیب : فانٍ خبر لکل من ذوالجلال بالرفع علیٰ انہ لغت للوجہ وبالجر لغتا للمجرور۔ یسئلہ مستانف اوحال من وجہ والعامل فیہ یبقٰی۔ کل ظرف لمادل علیہ ھوفی شان لاتنفذون لانافیۃ شواظ بالضم والکسر لغتان ھو اللہب الذی لادخان معہ۔ من نار صفۃ او متعلق بالفعل۔ نحاس بالرفع عطفا علی شواظ بالجر عطفا علے نار والاول اقوی۔ تفسیر : دلائلِ توحید میں عالم اور اس کی عمدہ اور نافع چیزیں پیدا کرنے کا ذکر تھا تاکہ معلوم ہو کہ یہ عالم قدیم نہیں بلکہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اس کے بعد عالم فنا کرنے کی قدرت بیان کرتا ہے اور ان کے فنا کرنے میں اپنی قدرت و جبروت ظاہر فرما کر تیسرے مسئلہ حشر کو بھی اسی کلام کے دوسرے پہلو میں ثابت فرماتا ہے کہ وہی پیدا کرنے والا ‘ وہی مٹانے والا ہے۔ فقال کل من علیہا فان کہ جو کچھ زمین پر ہے فانی ہے۔ اس تقدیر پر آیت میں جنت و دوزخ کی تخصیص کرنا بےفائدہ ہے کس لیے کہ وہ زمین ہی پر نہیں ان کا فنا کرنا یہاں مذکور نہیں۔ ویبقٰی وجہ ربک اور اے مخاطب ! تیرے رب کی ذات باقی رہے گی جو ذوالجلال والاکرام عزت و جلال والا ہے۔ وجہ سے مراد اس کی ذات اور اس کا وجود ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ ربک میں واحد حاضر کی طرف خطاب اس رمز کے لیے ہے کہ اے محمد ﷺ ! اصلی مخاطب ہو تم ہی اس بات کو سمجھتے ہو تمہارا رب جیسا کچھ ہے تم ہی اس کو خوب جانتے ہو کہ وہ حی وقیوم ازلی ابدی ہے اور اس کے سوا ممکنات فی ذاتہا فانی ہیں ان کی حیات ان کا وجود مستعار ہے۔ دنیا کی فنا بھی انسان کے لیے اس کی بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے فنا ہونے کے بعد عالم باقی میں جانا میسر آئے گا جو بڑی نعمت ہے۔ عرفاء نے سچ کہا ہے موت پل ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچا دیتی ہے اس کے علاوہ انسان کا رنج اور متکبروں کا جاہ و حشم فانی پر غرور اور ان کی کامرانی کی انتہا اور ایک محدود زمانہ دیکھ کر مومن کے دل میں تسکین پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک اس کی بڑی نعمت ہے جس لیے فرماتا ہے فبای آلاء ربکما تکذبان۔ ایجاد اور فنا کے بعد یہ بھی بتلاتا ہے کہ یہ بات نہیں کہ ہم نے ایک بار عالم کو پیدا کردیا پھر سب کچھ آپ ہی ہو رہا ہے اور ایک روز ہم فنا کردیں گے بس ہمارے کام کے یہی دو روز ہیں اور بیچ میں ہم کچھ نہیں کرتے جیسا کہ بعض اقوام کا خیال ہے بلکہ یسئلہ من فی السمٰوات والارض کل یوم ھو فی شان کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والے خواہ بزبان حال خواہ بزبان مقال اسی سے مانگتے ہیں اور وہ ہر روز نئی شان میں ہے اس کی شانیں بےانتہا ہیں جن کا وہ وقتاً فوقتاً اظہار کرتا ہے۔ عبداللہ بن منیب ؓ صحابی کہتے ہیں کہ ہمارے روبرو رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ ہم نے پوچھا حضرت شان سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ یہ کہ وہ گناہ بخشتا ہے اور غم دور کرتا ہے اور کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے۔ روایت کیا اس کو حسن ابن سفیان نے اپنی مسند میں اور ابن جریر و طبرانی و ابوالشیخ و ابن مندہ و ابن مردویہ و ابونعیم و ابن عساکر نے اور ابودردا ؓ سے یہی حدیث اپنی تاریخ میں بخاری نے و ابن ماجہ وغیرہ نے بھی نقل کی ہے۔ حق سبحانہ کی شیون اور اس کی نئی نئی تجلیات کا عالم میں ظہور ہوتا ہے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اور آیندہ ہوگا اور قیامت میں ہوگا سب اس کی ایک ایک شان کا جلوہ ہے۔ وہ بیکار اور نکما نہیں کہ دنیا کو پیدا کر کے آپ بیکار بن بیٹھا جیسا کہ بعض حکماء اور ہنود اور دیگر اہل مذاہب کا خیال ہے خصوصاً حکمائِ فرنگ کا۔ اس کے بعد پھر دارآخرت کے مسئلہ میں اپنی شان بیان فرماتا ہے سنفرغ لکم ایہا الثقلٰن۔ زجاج و کسائی و ابن الاعرابی و ابوعلی فارسی فرماتے ہیں کہ اس جملہ میں فراغ سے مراد وہ فراغ نہیں جو کام کے بعد ہوتا ہے کس لیے کہ اس کا کوئی ایسا شغل نہیں کہ جس سے فارغ ہونا کہا جائے اور نہ اس کی کوئی شان دوسری شان کو روکتی ہے بلکہ مراد ہے قصد کرنا۔ ثقلان ثقل کا تثنیہ ہے جس سے مراد جن و انس ہیں۔ ثقل بوجھ کو کہتے ہیں۔ انسان و جن احکامِ الٰہی کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں اس لیے ان کو ثقلان کہتے ہیں یا اس لیے کہ یہ بہ نسبت اور حیوانات کے بھاری بھرکم یعنی ذی عزت عاقل ہیں یا اس لیے کہ یہ گناہوں کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں۔ یہ جعفر صادق ؓ کا قول ہے۔ لکم میں جمع کا صیغہ لا کر پھر خطاب میں ایہا الثقلان تثنیہ کا صیغہ لایا اس لیے کہ وہ دو فریق ہیں اور ہر فریق جماعت ہے۔ بعض کہتے ہیں ثقلان سے مراد نیک و بد انسان ہیں۔ یا عالم ناسوت و ملکوت کے لوگ۔ یہ خلاف جمہور ہے۔ یعنی اے جن و انس ! کیوں حساب و قیامت کے بارے میں جلدی کرتے ہو ہم ابھی تمہارا کام کئے دیتے ہیں۔ یہ دیر ہمارے نزدیک کچھ بھی دیر نہیں اس میں تہدید ہے منکران قیامت کے لیے۔ یہ بھی اس کی ایک نعمت ہے کہ اس سے ڈر کر بدی سے باز آئے اور نیک نیکی میں سرگرمی کرے۔ اس لیے فرماتا ہے فبای آلاء ربکما تکذبان۔ اس کے بعد یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ہر ایک ہماری قدرت کے احاطہ میں ہے کوئی اس سے باہر نہیں نکل سکتا فقال یامعشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السمٰوات والارض فانفذوا کہ اے جن و انسان کے گروہ اگر تم آسمانوں اور زمین کے حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جائو۔ لاتنفذون الابسلطان نکل نہ سکو گے مگر قوت کے ساتھ اور وہ قوت تم میں کہاں ہے بلکہ کسی میں بھی نہیں۔ تم سب اس کی قدرت کے احاطہ میں بند ہو وہ جو احکام چاہتا ہے دنیا میں نافذ کرتا ہے کوئی ان پیش آنے والے حوادث کو ٹال نہیں سکتا اور آخرت میں تم پر اپنے احکام جبروتی نافذکرے گا۔ یرسل علیکما شواظ من نارونحاس فلاتنتصران۔ شواظ ابن عباس ؓ کہتے ہیں شواظ آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں نحاس۔ مجاہد کہتے ہیں اس سے مراد پگھلا ہوا تانبا جو قیامت میں دوزخیوں پر ڈالا جائے گا۔ سعید بن جبیرو ابن عباس ؓ کہتے ہیں نحاس دھواں جو جہنمیوں پر چھوڑا جائے گا۔ یعنی قیامت میں۔ اے جن و انس کے مجرمو ! تم پر شعلہ آتش اور دھواں چھوڑا جائے گا جس کو تم دفع نہ کرسکو گے۔ اس بیان میں بھی بوجہ تہدید ہونے کے جس سے انسان بدی سے بچ کر نیکی کا رستہ اختیار کرنے میں سرگرم ہوجائے بڑی نعمت و احسان ہے۔ جس لیے ان شدائد قیامت کے ذکر کرنے کے بعد بھی فبای آلاء ربکما تکذبان کا لانا ایک عمدہ مناسبت رکھتا ہے۔
Top