Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 37
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِۚ
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ : تو جب پھٹ جائے گا آسمان فَكَانَتْ : تو ہوجائے گا وَرْدَةً : سرخ كَالدِّهَانِ : سرخ چمڑے کی طرح۔ تیل کی تلچھٹ کی طرح
پھر جب کہ آسمان پھٹ جائے اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو
ترکیب : فاذا شرط فکانت جواب الشرط وقیل جو ابہ فیومئذ الخ فکانت علیٰ ھذاعطف۔ وقیل جو ابہ محذوف اے رأیت امرمھولا۔ کالدھان جمع دھن کقرط وقیراط ورمح و رماح۔ وقیل اسم مفرد کالخرام والادام۔ خبرتان علی کان الناقصۃ وحال علیٰ تقدیر کو نھا تا مۃ عن ذنبہ والضمیر للانس باعتبار اللفظ وان تاخر لفظاً تقدم رتبۃً ۔ والاخذ یستعمل بالباء تارۃً بغیر ھاتارۃً یقال اخذت الخطام واخذت بالخطام قالہ الکرخی یطوفون حال من المجرمون ویجوز ان یکون مستانفاً ان اسم فاعل منقوص کقاص۔ قال الزجاج انی یانی فھوآن اذا انتہٰی فی النضج والحرارۃ۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا یرسل علیکما شواظ من نار کہ تم پر آگ کا شعلہ چھوڑا جائے گا۔ اب یہاں اس کا وقت بیان فرماتا ہے کہ یہ کب ہوگا ؟ یعنی قیامت میں اس لیے قیامت کی تشریح کرتا ہے کہ وہ کب ہوگی اور کیوں کر ؟ اور تیسرے مسئلہ معاد کا بھی ذکر کرنا مقصود تھا مگر اسی سلسلہ میں فقال اذا انشقت السماء کہ جس دن آسمان پھٹ جائیں گے پھر وہ گلابی ہوجائیں گے جیسا کہ سرخ چمڑا۔ فکانت وردۃ کالدھان کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں وردۃ سرخی مائل گھوڑے کی طرح ان کا رنگ ہوجائے گا۔ صراح میں ہے ورد بالفتح گل وردۃ یکے وقیل للاسدورد للونہ و للفرس ایضا وھو بین الکمیت والاشقر و للانثیٰ وردۃ والجمع وردمثل جون و جُون و ورادُٗایضاً وردۃ گلگوں شدن۔ دھن بالضم روغن و باران ضعیف۔ دھان جمع۔ دھان بالکسر ایضاً ادیم سرخ۔ صراح یہ اختلاف دھان کے لفظی معنی پر مبنی ہے۔ فراء ابوعبیدہ کہتے ہیں اس وقت شدت حرارت کی وجہ سے آسمان سرخ ہوجائے گا اور حسن کہتے ہیں کہ جس طرح تیل کو پانی میں ڈال دیتے ہیں اور اس میں سرخی مائل مختلف ٹکڑے نظر آیا کرتے ہیں قیامت کے دن آسمانوں کا یہی حال ہوجائے گا۔ پہلے قول کی علت گا زرونی و عمادی وغیرہ علماء نے یہ بیان کی ہے کہ اصلی رنگت آسمان کی قدماء کے نزدیک سرخ ہے لیکن بعد مسافت اور کثرت حوائل و حواجز اور ہمارے اور اس کے بیچ میں ہوا آجانے کی وجہ سے نیلگوں دکھائی دیتا ہے جیسا کہ عروق میں خون باوجود سرخ ہونے کے نیلگوں دکھائی دیا کرتا ہے۔ ایسا ہو مگر فلسفہ جدید یا قدیم کے مطابق کرنے میں ہم کو اس قدر موشگافی کرنے کی حاجت ہی کیا ہے۔ خواہ آسمانوں کی اصلی رنگت سرخ ہو یا نیلگوں یا کوئی بھی رنگت نہ ہو بوجہ شفاف ہونے کے اور یہ نیلی چھتری صرف کرہ ہوا کے سبب ہم کو نظر آیا کرتی ہے اور چونکہ آسمانوں کے تلے یہ چھت گیری ہم کو دکھائی دیتی ہے اور اسی لیے ہم اسی کو آسمان کہتے ہیں یا جو کچھ ہو قرآن مجید کا صاف مطلب اسی قدر سے متعلق ہے کہ قیامت کے روز آسمان پھٹ جائیں گے یعنی خراب ہوجائیں گے اور اس صدمہ عظیم کے وقت سرخی نمودار ہوگی۔ یہ آسمان سرخ ہوجائے گا اس کے قہروجبروت کے آثار اس پر ظاہر ہوں گے اور وہ خونی لباس سے ملبوس ہوگا۔ یہ بھی اس کی بڑی نعمت ہے کیونکہ یہ آسمان فنا نہ ہوں تو عالم قدس آباد نہ ہو اس لیے فرماتا ہے فبای آلاء ربکما تکذبان کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ پھر اس روز مجرموں کے ساتھ کیا ہوگا۔ فقال فیومئذ لایسئل عن ذنبہ انس ولاجان کہ اس روز کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہ کی بابت کچھ نہ پوچھا جائے گا۔ یہ بڑی تہدید ہے جس سے عاقل گناہ سے بچنے میں بڑی کوشش کرسکتا ہے اس لیے یہ بھی اس کی ایک نعمت ہے فبای آلاء ربکما تکذبان اس کے بعد اس پوچھے جانے کا سبب بیان فرماتا ہے۔ فقال یعرف المجرمون بسیماھم فیؤخذبالنواصی والاقدام کہ گنہگار ان کے چہروں سے خود پہچانے جائیں گے۔ گناہوں کا داغ اور اس کی سیاہی ان کے منہ پر خودبخود کہہ دے گی کہ یہ گنہگار ہے، پھر پوچھنے کی کیا حاجت ؟ پھر ان کے سر کے بال اور ٹانگیں پکڑ پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا النواصی جمع ناصیہ ماتھے کے بال۔ فائدہ : اس قسم کی آیات کے کہ جہاں نہ پوچھے جانے کا ذکر ہے وہ آیات مخالف نہیں کہ جہاں سوال کرنے کا ذکر آیا ہے (جیسا کہ یہ آیت فوربک لنسئلنہم اجمعین کہ تیرے رب کی یعنی اپنی قسم کہ ہم ہر ایک سے ضرور ہی پرسش کریں گے) کس لیے کہ یہ سوال کرنا ایک مقام خاص پر مراد ہے اور نہ سوال کرنا دوسری جگہ ہوگا۔ یا یہ کہ وہ سوال کرنا بطور دریافت کرنے کے نہ ہوگا بلکہ سرزنش اور تہدید کے طور پر اور یہاں بھی سوال نہ کئے جانے سے یہی مراد ہے کہ بطور دریافت کے سوال نہ ہوگا کس لیے کہ ان کے چہروں سے معلوم ہوجائے گا اور ان کے ہاتھ پائوں گواہی دیں گے۔ یہ کلام بھی بڑی تہدید کا ہے جو انسان کو سعادت کے رستہ پر کھینچ کر لانے والا ہے۔ اس لیے یہ بھی ایک نعمت ہے فقال فبای آلاء ربکما تکذبان۔ پھر ان دوزخیوں سے کہا جائے گا ھذہ جہنم التی یکذب بہا الجرمون۔ کہ یہ وہی تو جہنم ہے کہ جس کو یہ گنہگار دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے۔ یطوفون بینہاوبین حمیم آن۔ اب یہ حال ہے کہ وہ گنہگار اس دوزخ میں اور اس کے اندر جو گرم اور کھولتا ہوا پانی ہے اس میں پھر رہے ہیں جس کا انکار تھا وہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ احادیث صحیحہ میں جہنم کے عذابوں کا مفصل طور پر بیان آیا ہے۔ نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہنم میں سب سے کم عذاب یہ ہوگا کہ اس کی جوتیاں اور ان کے تسمے آگ کے ہوں گے جس سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح پکے گا وہ سمجھے گا کہ مجھ سے زیادہ کسی کو عذاب نہیں حالانکہ اس کو سب سے کم ہے۔ (متفق علیہ) اس مصیبت دردناک سے خدا نے اس کی تدبیر بتلا کر بچنے کا سامان کیا۔ یہ اس کی کیسی نعمت ہے ؟ اس لیے اس کے بعد فرماتا ہے فبای آلاء ربکما تکذبان۔ انسان جو ان باتوں پر کان نہیں دھرتا تو اس نعمت کا انکار کرنا اور جھٹلانا ہے۔ یہاں تک مجرموں کی سزا کا بیان تھا۔
Top