Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 9
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ
وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو۔ تولو الْوَزْنَ : وزن کو بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا : اور نہ تُخْسِرُوا : خسارہ کر کے دو ۔ نقصان دو الْمِيْزَانَ : میزان میں۔ ترازو میں
اور انصاف سے تولو اور تول نہ گھٹائو
ترکیب : ولاتخسرو ابضم التاء ای ولا تنقصوا الموزدن وقیل التقدیر فی المیزان۔ ویقرء بفتح التاء والخاء والاول اصح۔ للانام یتعلق بوضعہا والحب بالرفع عطفاً علی النخل والریحان کذلک ویقرء بالنصب ای خلق الحب۔ کالفخار لغت لصلصال من نار لغت لمارج۔ رب المشرقین ای ھو وقیل ھذا مبتداء دخبرہ مرج الاکمام جمع کم بالکسرو ھو دعاء الثمر اصلہ یطلق علی ماستر شیئا ومنہ کم القمیص بالضم۔ تفسیر : پہلے بطور علت و سبب کے عدل قائم کرنا بیان فرمایا تھا۔ اب بصراحت حکم دیتا ہے واقیموالوزن بالقسط کہ دنیا میں انصاف کی ترازو سے تولو۔ یہ حکم بڑا وسیع المعنی ہے جس میں اشیاء کا انصاف سے تولنا بھی داخل ہے اور عموماً ہر بات میں حق بات کہنا اور حق پر عمل کرنا اور عبادت و معاملات میں حقوق العباد سے لے کر حقوق اللہ تک بلکہ اپنے نفس کے حقوق دنیاوی اور دینی سب میں انصاف کی ترازو ہاتھ میں رکھنے اور تولنے کا حکم ہے۔ بات چیت کرنے اور چلنے پھرنے سونے جاگنے میں۔ کیا جامع کلمہ ہے جس میں صدہا حکمت کے خزانے دبے ہوئے ہیں۔ پھر اس کی تائید کی جاتی ہے ولاتخسروا المیزان کہ اس ترازو میں گھٹاؤ نہیں یعنی بےانصافی نہ کرو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو قیامت میں تمہارے اعمال کی ترازو میں کمی ہوگی۔ پس تم اپنی اس میزان میں کمی کرنے کا سبب نہ بنو۔ سماویات کے بعد عالم سفلی کی ایجاد میں جو کچھ انتظام اور مصلحتیں اور رحمتیں ملحوظ رکھی ہیں ان کو بیان کر کے اپنا قادرورحیم ہونا ثابت کرتا ہے۔ فقال والارض وضعہا للانام کہ زمین کو انسان کے لیے کس طرح بچھایا اور ان کے آرام کرنے کے قابل بنایا کہ جس پر بلاکلفت و تکلف بستے اور چلتے پھرتے ہیں۔ نہ وہ ڈگمگاتی ہے، نہ ایسی گول ہے کہ جس پر یہ ٹھہر نہ سکیں اور نہ صرف یہی بات ہے بلکہ فیہا فاکہۃ والنخل ذات الاکمام۔ اس میں انواع و اقسام کے میوے ہیں اور کھجور بھی ہے جس کے پھلوں پر غلاف ہوتے ہیں یعنی میوے ہی پر موقوف نہیں ایسے بھی درخت زمین پر پیدا کئے ہیں جن کے پھل کھا کر انسان بغیر اناج کے بھی بسر کرسکتا ہے جیسا کہ کھجور اور وہ پھل کس حفاظت سے رہتے ہیں کہ گابھے میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور اس قسم کے درختوں کے سوائ۔ والحب ذوالعصف چارے والے اناج اور غلے بھی پیدا کئے جن کے تخم تو انسان کی خوراک ہیں اور ان کے پٹھے اور پتے جانوروں کی جیسا کہ گیہوں چاول جو وغیرہ۔ اور اس کے علاوہ الریحان خوشبو کی چیزیں اور عمدہ پھول بھی پیدا کئے۔ گلاب، موتیا، چنبیلی وغیرہ بلکہ خود ریحان بھی اسی قسم میں داخل ہے جس کے پتوں میں سے خوشبو آتی ہے۔ ان کے پتے اور پھول خوشبو دار اور آنکھوں میں اپنی مختلف رنگتوں سے نور اور سرور بھی پیدا کرتے ہیں۔ ایک پھول ہے کہ سرخ، کوئی گلابی، کوئی زرد، کوئی کا سنی، کوئی اُودا، کوئی سفید۔ پھر ایک پیڑ میں مختلف الوان کے پھول بلکہ ایک پھول میں مختلف رنگتیں پھر یہ گلکاری اس صانع مطلق نے تمہارے لیے کی ہے تم شکریہ ادا کرو۔ فبای آلاء ربکما تکذبان اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ آلاء جمع ہے الی وء الی کی جس کے معنی ہیں نعمت و احسان کے۔ ربکما تکذبان میں تثنیہ کا صیغہ جن و انس کی طرف خطاب کے لیے آیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے سنفرغ لکم ایہا الثقلان اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ میں نے اس سورة کو جنوں کے سامنے پڑھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں خطاب انسان کی طرف ہے اور عرب خطاب میں صیغہ مفرد کو تثنیہ کر کے بول دیا کرتے ہیں۔ یہاں تک جس طرح مسئلہ نبوت کا اثبات تھا اسی طرح دوسرے مسئلہ توحید کا بھی کامل اثبات کردیا گیا اس طور پر کہ جس نے دنیا میں آفتاب و مہتاب کو ایک خاص اندازے پر چلایا، ستاروں اور درختوں کو جھکایا، زمین کو بسنے کے قابل بنایا پھر اس میں طرح طرح کے درخت اناج اور پھل پھول اگائے وہی تنہا خداوند خدا ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ سہیم۔ اس کے بعد انسان اور جن کی پیدائش کا ذکر کر کے دونوں مسئلوں کو قوت دیتا ہے۔ فقال خلق الانسان من صلصال کالفخار صلصال خشک مٹی کھنکھناتی۔ صلصلہ کے معنی ہیں آواز دینا، کھن کھن کی سوکھی مٹی میں سے آواز آتی ہے اس لیے اس کو صلصال کہتے ہیں۔ فخار ٹھیکری صلصال بالفتح گل باریک آمیختہ یعنی غریژن فاذا طبخ بالنار یقال الفخار (مراح) آدمی کی پیدائش متعدد آیات میں بیان ہوئی ہے۔ آل عمران میں من تراب اور حجر میں من حمائٍ مسنون اور صافات میں طین لازب آیا ہے اور ایک جگہ ماء مہین آیا ہے اور اس جگہ صلصال کالفخار آیا ہے۔ ان میں بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے مگر دراصل کچھ اختلاف نہیں کیونکہ روایات اہل اسلام کے مطابق حضرت آدم (علیہ السلام) کا قالب خشک مٹی سے بنایا گیا جو کھنکھناتی اور ٹھیکرے کے مثال تھی پھر اس کو مہین کر کے پانی سے گوندھا وہ طین لازب گارا ہوگئی پھر جب خمیر اٹھ گیا تو حمائٍ مسنون ہوگئی اور اس کے بعد اس کی اولاد کا سلسلہ ماء مہین منی سے جاری ہوا۔ وخلق الجان من مارج من نار اور جان یعنی جنوں کے جدِّاعلیٰ کو آگ کے شعلہ سے بنایا۔ مارج آگ کا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو جس طرح انسان عناصر سے بنا ہے جن بھی عناصر سے بنا ہے مگر جس طرح انسان کا زیادہ مادہ خاک ہے اسی طرح جن کا آتش۔ جس لیے وہ لطافت کی وجہ سے حسِّ بصر سے محسوس نہیں ہوتا اور سریع الحرکات و خفیف ہوتا ہے۔ پھر ان کے بہت سے اقسام ہیں جیسا کہ ہم مقدمہ تفسیر میں بیان کر آئے ہیں۔ وہ قرآن مجید کی تاویل کر کے وجودِ جن کے منکر کہاں ہیں جو بتقلید فلاسفہ حال جن کا انکار کرتے ہیں اور اس کو بھی انسانوں کی ایک جنگلی قوم بلحاظ لفظ جن قرار دیتے ہیں وہ یہاں کیا کریں گے یہاں تو انسان کے مقابلہ میں دوسری قوم بیان ہوئی اور ان کا مادہ بھی بیان فرما دیا۔ فبای الاء ربکما تکذبان۔ اے انسان و جن تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ رب المشرقین و رب المغربین دو مشرق اور دو مغرب کا رب۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں جاڑے میں آفتاب اور جگہ سے اور گرمی میں اور جگہ سے طلوع کرتا ہے۔ اس ظاہر فرق کے لحاظ سے مشرقین یعنی دو مشرق کہتے ہیں۔ اسی طرح دونوں موسموں میں غروب بھی دو جگہ سے معلوم ہوتا ہے اسی لیے مغربین دو مغرب کہے جاتے ہیں ورنہ ہر روز آفتاب کا طلوع و غروب دوسری جگہ سے ہوتا ہے جس لیے رب المشارق و المغارب کہا جاتا ہے۔
Top