بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے
ترکیب : یحییٰ ویمیت فی محل الرفع لکونہ جزا المبتداء المحذوف ای ھو۔ تفسیر : اس سے پہلی سورة کو اپنے نام پاک کی تسبیح کرنے پر تمام کیا تھا فسبح باسم ربک العظیم۔ اب اس سورة کی ابتداء میں اس تسبیح کی کیفیت بیان فرماتا ہے۔ فقال سبح للہ مافی السمٰوات والارض کہ تمہیں پر کچھ موقوف نہیں آسمانوں کے رہنے والے فرشتے (اور روحانیات حضرات انبیاء و اولیاء کرام) اور زمین کے رہنے والے ملائکہ و جمادات و نباتات اور کل موجودات اپنی زبان حال سے اس کی یکتائی و صنعت و ربوبیت و کمال کی گواہی دے رہے ہیں اور یہی ان کی تسبیح و تقدیس ہے۔ جو لوگ زبان سے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں مومنین و ملائکہ کرام خواہ وہ ارضی ہوں خواہ سماوی وہ زبان سے باقی کا دلالت حال تسبیح کر رہا ہے۔ یہ لفظ تسبیح قرآن مجید میں مختلف صیغوں میں آیا ہے۔ اس سورة اور سورة حشر اور صف وغیرہ میں بصیغہ ماضی اور سورة جمعہ و تغابن وغیرہ میں بلفظ مضارع یسبح اور بعض میں بصیغہ امر سبح جیسا کہ سورة اعلیٰ اور سورة بنی اسرائیل کے اول میں بصیغہ مصدر سبحان الذی اسریٰ بعبدہ۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی تسبیح و تقدیس کسی وقت کسی حال میں منقطع نہیں بلکہ ہر حال میں ہونی چاہیے گویا یوں فرمایا، اس کی تسبیح و تقدیس ہوتی آئی ہے اور ہوگی اور ہونی چاہیے اور ہوتی رہتی ہے اور اے لوگو ! تم بھی کرو۔ اور مافی السمٰوات الخ میں یہ اشارہ ہے اے بنی آدم ! کچھ تمہیں پر اس کی تسبیح و تقدیس موقوف نہیں اس کی تسبیح و تقدیس کرنے والے بہت ہیں آسمانوں کے فرشتے اور دیگر چیزیں اور زمین کے رہنے والے اور دریا کے جانور اور بیابانوں کے وحوش و طیور سوراخوں کے چیونٹے اور درند و پرند، نباتات و جمادات۔ اگر سننے والے کے کان ہوں تو عرش سے لے کر فرش تک اس کی تسبیح و تقدیس کا غلغلہ اور شور ہے۔ خاصان خدا نے کبھی جمادات کی تسبیح بھی سنی ہے۔ بخاری (رح) نے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے کی جس وقت کہ وہ کھایا جاتا تھا تسبیح سنا کرتے تھے۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے سامنے اور غرض اس کہنے سے کہ اسی کی ہر چیز تسبیح کرتی ہے خصوصاً شروع سورة میں یہ ہے کہ اے مشرکو، اے جاہلو، تم نے جو اپنے اوہام باطلہ اور قیاسات فاسدہ سے خدا تعالیٰ کی ذات پاک میں عیوب تجویز کر رکھے ہیں، کسی نے اس کے لیے بیٹیاں کسی نے بیٹا، کسی نے اس کے کارخانہ قضاء و قدر میں شریک سمجھ رکھے ہیں، کسی نے انسان کو خدا کا ہم شکل قرار دیا ہے، کسی نے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد اس کے لیے تکان ثابت کیا ہے کسی نے اس کو بعض امور کی نسبت عاجز تصور کیا ہے، کسی نے اس کو بغیر وسائل کے ہندوؤں کی دعائیں سننے سے بہرا قرار دے کر وسائل تجویز کر کے ان کی پرستش اختیار کی ہے، کسی نے اس کو عالم پیدا کرنے کے بعد معطل ٹھہرا رکھا ہے، وہ ان سب باتوں سے پاک ہے، اس کی پاکی زمین و آسمان کی ہر ایک چیز بیان کر رہی ہے۔ اس کے بعد وہ ان امور کے ابطال اور اپنی قدرت و کمال کے ثبوت میں جو تسبیح و تقدیس کے اسباب ہیں چند دلائل بیان فرماتا ہے مگر اسی سادے اور دل پسند طریق سے۔ دلیل اول وھو العزیز الحکیم تسبیح تنزیہ یعنی برائیوں سے مبرا کرنا۔ یہ دو باتیں چاہتا ہے اول یہ کہ جس کو عیوب سے مبرا کہا جاتا ہے وہ بےانتہا قدرت کاملہ رکھتا ہو کہ جس کے سبب کوئی عیب و نقص عجز کی وجہ سے اس کے گرد نہیں آنے پاتا۔ اس میں بیشمار باتیں آگئیں جورو بچوں سے پاک ہونا جسم و مقضیات جسم اور ہر قسم کی شہوانی و نفسانی خواہشیں بھوک، پیاس، نیند، اونگھ، موت و بیماری کسی کام کے کرنے پر بغیر کسی آلات و اسباب معین و مددگار کے قادر نہ ہونا سب سے پاک ہے۔ دوسری بات قدرت کے ساتھ حکمت بھی ہو کہ حقائق الاشیاء اور ہر چیز کی مناسب تدبیر آغازوانجام حاجات و عبادات ان کے دلی معاملات ‘ عالم کے انقلابات سب سے بخوبی واقفیت بھی ہو زور ہو اور حکمت و تدبیر نہ ہو وہ بھی بہت سے عیبوں کو پیدا کردیتا ہے۔ اس واقفیت کو حکمت کہتے ہیں۔ پہلی بات کے لیے العزیز دوسری کے لیے الحکیم فرما کر دعوے کو مدلل کردیا۔ اب رہی یہ بات کہ دراصل اس میں یہ دونوں وصف ہیں بھی یا نہیں ؟ اس کے ثبوت میں عالم کے تصرفات کو دلیل میں پیش کرتا ہے۔ فقال لہ ملک السمٰوات والارض کہ آسمانوں اور زمین پر اسی کی حکومت اور اسی کی سلطنت ہے۔ یہ بات ہر روز مشاہدے میں آرہی ہے کیونکہ یحییٰ و یمیت وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ گو عالم اسباب میں انسان اور حیوان اور جملہ موجودات کا وجود و عدم جس کو حیات و موت سے تعبیر کیا جاتا ہے بظاہر اسباب کی طرف منسوب ہے مگر جب عقل دوربین سے دیکھے گا تو ان جملہ اسباب کا سلسلہ اسی کی طرف جا کر منتہی ہوتا ہوا معلوم ہوگا جس کے لیے آخر یہی کہنا پڑے گا کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے۔ پھر جس کے قبضہ قدرت میں عالم کا ایجاد و انعدام ہے پھر اس کی کامل بادشاہی میں کیا کلام ہے ؟ کس بادشاہ کو رعیت پر یہ اختیارات حاصل ہیں ؟ اور لطف بلاغت یہ دیکھو کہ اس کو مضارع کے صیغوں سے بیان کیا تاکہ معلوم ہو کہ بالفعل یہی مارتا جلاتا ہے ہر روز یہ فعل جاری ہے اور رہے گا یہ نہیں کہ کرچکا جس میں کوئی کلام کرسکے۔ اس لیے اس بات کی آپ ہی تصریح بھی کرتا ہے۔ وھوعلیٰ کل شیئٍ قدیر کہ وہ ہر بات پر قادر ہے۔ پھر اس قدرت کاملہ کا اظہار اپنی چار صفتوں میں ثابت کرتا ہے فقال ھوالاول کہ وہ سب سے اول ہے اس سے پہلے کوئی نہیں کیونکہ ہر شے کا موجد ہے اور علت کا وجود جملہ معلومات سے مقدم ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء جب ہوتی کہ کوئی اس سے پہلے ہوتا پس وہ ازلی اور قدیم ہے۔ ذات وصفات میں اور جو کچھ ہے وہ حادث ہے ذات وصفات میں ان کی نیستی ان کی ہستی سے مقدم ہے اور اسی طرح وہ الآخر بھی ہے سب کے بعد وہی رہے گا۔ یعنی ابدی بھی ہے سب مٹ جائیں گے پر وہ رہے گا اور الظاھر اور وہ سب پر غالب اور بلند بھی ہے سب سے برتر ہے۔ یا یہ معنی کہ تجلیات اور موجودات کے پردوں میں سے ایسا ظاہر ہے کہ اس قدر کوئی چیز ظاہر نہیں۔ مصنوع جب اپنی خوبیوں کا جلوہ دکھاتا ہے اس سے پہلے اس کے صانع کی خوبی اور اس کا وجود جلوہ گر ہوتا ہے انہیں معنوں میں بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ میں جب کسی چیز کو دیکھتا ہوں سب سے پہلے اس میں اللہ کو دیکھتا ہوں ؎ کہ بچشمانِ دل مبیں جز دوست ہر چہ بینی بداں کہ مظہراوست باوجود اس کے الباطن صانع بھی ایسا ہے کہ کسی کو ان آنکھوں سے نظر نہیں آتا اس کی حقیقت ذات ادراک ابصار و عقول سے محتجب ہے۔ یا یوں کہو کہ جس طرح سب سے بلند اور اونچا ہے اسی طرح سب سے نیچا بھی وہی ہے۔ وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ ” اگر تم کنوئیں میں ڈول ڈالو گے تو وہ اللہ ہی پر جا کر پڑے گا۔ “ اس کے یہی معنی ہیں۔ وہ ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے احاطہ سے کوئی باہر نہیں، سب کو گھیرے ہوئے ہے۔ ترمذی و مسلم وغیرہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں ایک دعا کا تلقین فرمانا مذکور ہے۔ وہاں رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں اور یہی تفسیر کی ہے اور اسی طرح احمد و مسلم وغیرہ نے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور بھی حدیث نقل کی ہے جس میں ان چاروں لفظوں کے یہی معنی بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک پہلی بات کا ثبوت یعنی العزیز کی توضیح و تفسیر تھی مگر انہیں میں سے دوسرے وصف کا بھی جلوہ نمایاں تھا اس لیے اس کی بھی تصریح کردی وھو بکل شیء علیم یہ الحکیم کی تفسیر ہے اس کے بعد ایک گزشتہ اور ماضی فعل کو ذکر کرتا ہے جس سے اس کی کمال قدرت و حکمت کا اظہار ہوتا ہے۔ فقال ہوالذی خلق السمٰوات الخ کہ اسی نے تو آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں بنایا۔ اس کی تفسیر کئی جگہ ہوچکی ہے۔ ثم استویٰ علی العرش۔ اس کے بعد تخت حکومت پر تصرفات کرنے کو بیٹھا۔ اس کی بھی تفسیر و تحقیق ہوچکی۔ اس کے بعد پھر اپنی حکمت و علم کا اظہار کرتا ہے یعلم ما یلج فی الارض کہ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں گھستا ہے۔ پانی اور نباتات کے تخم اور خزانے اور مردوں کی لاشیں وغیرہ ومایخرج منہا اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اس کو بھی جانتا ہے نباتات معادن وغیرہ و ماینزل من السماء اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے۔ ملائکہ، رحمت، عذاب، بارش، احکام حوادث وغیرہ سب کو جانتا ہے۔ ومایعرج فیہا اور جو کچھ نیچے سے اوپر چڑھ کرجاتا ہے بندوں کے نیک اعمال اور نیک روحیں اور بعض انبیاء زندہ اور بندوں کی دعائیں اور زمین کے ابخرات سب کو جانتا ہے اور انہیں پر کیا موقوف ہے۔ وھومعکم اینما کنتم۔ وہ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے واللہ بماتعملون بصیر اور جو کچھ تم کر رہے ہو وہ دیکھ رہا ہے۔ پھر اسی جملہ کا اگلے مضمون کی تمہید بنا کر اعادہ کرتا ہے۔ فقال ملک السمٰوات والارض اس کے بعد پھر اپنی قوت و حکمت کا اظہار کرتا ہے۔ فقال والی اللہ ترجع الامور عالم سفلی سے لے کر علوی تک اور جسمانی سے لے کر روحانی تک جن کے کاروبار اسباب پر مبنی ہیں۔ سب اسباب اسی مسبب الاسباب کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی قبضہ قدرت میں ہیں اور تمام کائنات کا وہی مرکز اصلی ہے سب کا میلان اسی طرف ہے۔ ع ہمہ روسوئے توبودو ہمہ سو روئے توبود۔ مگر بہیمیت کے ظلمات اور رسم و رواج کی تقلید کے بغیر اس کے رستے میں حائل ہو کر اس کو اس طرف جانے سے روک دیتے ہیں انہیں کے دور کرنے کو دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ سب چیزوں کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یعنی اس کے ہاتھ میں ہونا بیان فرماتا تھا اس کے بعد چند بڑی بڑی باتوں کا اس کی طرف رجوع کرنا فرماتا ہے فقال یولج الیل فی النہار الخ۔ رات دن کو دیکھو کہ وہ قادر مطلق ان کو کس طرح سے الٹی پلٹی دیا کرتا ہے۔ تمام جہان منور ہوتا ہے دن کی بادشاہت زور پر ہوتی ہے کہ اس کو نیست کر کے رات کو اس میں داخل کردیتا ہے پھر رات دخیل ہو کر تمام جہان پر اپنا قبضہ کرلیتی ہے۔ اس کے بعد پھر دن کو اس میں داخل کردیتا ہے۔ یہ کیسا انقلاب عظیم ہے پھر کس کے قبضہ میں ہے ؟ اسی کے۔ آفتاب بھی اس کے حکم سے چلتا ہے، اس کی لگام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس کی قدرت کا نمونہ ہے اور علم کی یہ کیفیت ہے کہ وھو علیم بذات الصدور وہ ان چیزوں کو بھی تو جانتا ہے جو سینہ میں ہوتی ہیں یعنی دل میں مخفی ہوتی ہیں۔ دل کی بات کو سینے کی بات بھی محاورہ عرب میں کہتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ دل سینہ میں ہوتا ہے انسان کے تمام مخفی ارادے اور خطرات بھی اس کے سامنے حاضر ہیں۔ جب یہ ہے تو انسان کو اپنے دل میں سب سے عمدہ خیال اور سب سے اعلیٰ اعتقاد رکھنا چاہئے۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا آمنو باللّٰہ ورسولہ کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو نجات اور حیات ابدی کا ذریعہ ہے اور دوسری زندگانی کی روح ہے۔ مگر صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں اس کے بعد کچھ عمدہ کام بھی کرنے چاہییں اور اعمال میں خلق خدا کے ساتھ سلوک کرنا بڑا عمدہ کام ہے اس لیے اسی کو ذکر کیا۔ وانفقوا الخ کہ خیرات بھی کرو۔ ابتدائِ اسلام میں جب کہ آنحضرت ﷺ کفار قریش کی سخت کشاکش میں تھے، ایمان لانا اور خیرات کرنا ہی سکھایا جاتا تھا اور باتوں کے ماننے کی ابھی ان میں صلاحیت نہ تھی جب صلاحیت بڑھتی گئی اور احکام بھی تکمیل سعادت کے لیے فرض ہوتے گئے۔ اس لیے اس آیت میں ان کفار قریش کو انہیں دو باتوں کی طرف بلایا جاتا ہے مگر مال خرچ کرنا آسان کام نہیں۔ طبیعت کا بخل مانع آیا کرتا ہے اس لیے مختلف طور سے اس کی تاکید کی جاتی ہے۔ (1) مماجعلکم مستخلفین فیہ اس مال میں سے دو جس کا خدا نے تم کو خلیفہ یا وارث بنایا، باپ دادا کی میراث یا کسی کے عطیہ یا کسی سبب 1 ؎ سے حاصل ہونا۔ کل وہ غیر کے پاس تھا آج اس کے پاس یہ اس کا خلیفہ یعنی قائم مقام ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سدا کسی کے پاس نہیں رہا ہے نہ تمہارے پاس رہے گا آنی جانی چیز ہے اس میں جو کچھ ہو سکے اپنے عہد میں نیکی کرلو مرنے سے یا دیگر اسباب سے یہ دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے۔ (2) فالذین آمنوا الخ کہ جو ایمان لائیں گے اور اللہ کے رستے میں دیں گے ان کے لیے بڑا عمدہ بدلہ ملے گا یہ ضائع نہ جائے گا۔ کبھی اس دنیا میں بھی مل جاتا ہے ورنہ اکثر تو اس جہان میں ملتا ہے جہاں یہ مر کرجاتا ہے اور دوسری زندگی حاصل کرتا ہے۔ اس لیے نیک لوگوں نے جو کچھ ملا اللہ کی راہ میں صرف کردیا۔ ایک صحابی ؓ سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے گھر میں تمہارا کچھ مال و اسباب دکھائی نہیں دیتا کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا بھائی یہ میرا گھر نہیں مسافرخانہ ہے چند روزہ مہمان ہوں، مجھے جو ملتا ہے اس کو اپنے اصلی گھر میں بھیج دیتا ہوں جس کو نہ کوئی چور لے سکے نہ ظالم چھین سکے۔ جواب سن کر سائل پھوٹ پھوٹ کر اپنی غفلت اور حبِّ مال پر رونے لگا۔ یہاں سے ایمان کی بھی تاکید شروع ہوگئی کیونکہ یہ نہیں تو خیرات کا بھی نفع نہیں اور یہی اعتقاد تو اس کو خیرات پر حرکت دیتا ہے اس لیے ایمان کی تاکید کرتا ہے۔ فقال وما لکم لاتؤمنون الخ کہ تم کس لیے ایمان نہیں لاتے حالانکہ اللہ کا رسول تم کو ایمان لانے کے لیے کہہ رہا ہے اور تم سے عہد بھی لے لیا ہے یا تو وہی عہد ِ ازلی جو روحوں سے لیا گیا تھا یا دنیا میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا حاصل کرنا اور روزمرہ صدہا دلائل دیکھنا عقل سلیم کا عہد ہے کہ اپنے اللہ پر ایمان لائے۔ ان کنتم مؤمنین اگر تم کو ایمان لانا منظور ہے تو کس لیے نہیں لاتے۔ بعض کہتے ہیں ان الخ جملہ شرطیہ ہے جزا محذوف ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تم کو اجر عظیم ملے گا۔ ھوالذی ینزل الخ کہ اللہ جس پر ایمان 2 ؎ لانا چاہیے وہ ہے کہ جو اپنے بندے محمد ﷺ پر آیتیں نازل کر رہا ہے خاص تمہارے بھلے کو کہ تم کو گمراہی کی اندھیریوں میں سے نکال کر ہدایت وسعادت کی روشنی میں لائے اور اللہ تم پر بڑا مہربان ہے جو اس نے ایمان لانے کے لیے رسول بھیجا ورنہ اس کو کیا پروا تھی۔ یہ بیچ میں تاکیدیں ایمان کے لیے تھیں جو مقصد اصلی ہے۔ (3) تاکیدہ ومالکم الاتنْفِقُوْا الخ خیرات کے لیے کہ تم کس لیے خرچ نہیں کرتے آخر چھوڑ جاؤ گے سب اللہ کے لیے رہ جائے گا۔ یا یہ کہ سب مال اللہ کا ہے اس کے بدلے میں تمہیں اور دے گا۔ (4) پھر خیرات کے مراتب بیان فرماتا ہے۔ لایستوی کہ خیرات اگرچہ ہر حال میں بہتر ہے مگر بعض اوقات کہ جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کا زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ ابتدائِ اسلام میں مکہ فتح ہونے سے پہلے فقرائِ اسلام پر بڑی تنگدستی تھی اس وقت کا دیا بعد کے دیے کے برابر نہیں جس نے اس وقت اللہ کی راہ میں دیا اور جہاد کیا، جان اور مال دونوں کام میں لایا اس کا اللہ کے نزدیک بڑا درجہ ہے مگر جس نے بعد میں بھی ایسا کیا ثواب اور نیک وعدہ اس کے لیے بھی کیا مگر مدارنیت اور خلوص پر ہے اس لیے فرما دیا۔ واللّٰہ بماتعملون خبیر کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ جانتا ہے۔ اس میں یہ بھی رمز ہے کہ اس سے مت ڈرو کہ ہمارے دین کا اس کو علم نہ ہوگا پھر بدلہ کیونکر ملے گا جیسا کہ دنیاوی بادشاہوں کے کارگزاروں کو فکر ہوتی ہے جس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ آقا کو یہ کارگزاری معلوم ہوجائے۔ (5) من ذا الذی الخ۔ یہ اور زیادہ اللہ کی راہ میں دینے کی تحریک ہے یعنی جو کچھ تم دیتے ہو اللہ کو قرض دیتے ہو جو بڑا غنی اور دگنا کر کے دینے والا ہے۔ پھر کوئی ہے جو اس کو قرض دے جو دگنا واپس دے اور اپنی طرف سے عمدہ اجر بھی دے ؟ ہرچند خدا تعالیٰ کو کسی کی کچھ حاجت نہیں نہ وہ محتاج ہے، نہ اس کو قرض لینے کی حاجت ہے مگر یہ اس کی رحیمی ہے کہ جو کوئی اس کے لیے کسی حاجت مند کو دیتا ہے گویا خدا تعالیٰ اپنی ضمانت دیتا ہے کہ یہ اس نے ہم کو قرض دیا ہم دگنا کر کے دیں گے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے قیامت میں 1 ؎ تجارت ہو یا حرفہ۔ 12 منہ 2 ؎ گمراہی کے بہت اقسام تھے ہر ایک کی جداگانہ ظلمت تھی جس میں اس عہد کے لوگ مبتلا تھے اس لیے ظلمات جمع کا صیغہ ہے اور ایمان و ہدایت کی روشنی ایک ہی نور ہے اس لیے مفرد لایا۔ 12 منہ خدا تعالیٰ فرمائے گا بندے میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا کہ الٰہی تو ان باتوں سے پاک تھا۔ فرمائے گا تیرے پاس میرا بندہ بیمار تھا تو اس کی عیادت کرتا گویا میری عیادت کرتا اور میرا بندہ تیرے پاس بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتا گویا مجھ کو کھلاتا کیونکہ یہ سب کام میرے ہی واسطے ہوتے۔ اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسکین پر اس کے الطاف کی تجلی ہوتی ہے اور ہر دردمند پر اس لیے یہ مصائب خاص لوگوں پر نازل ہوتی ہیں یہودبدبخت نے اس بات کو سمجھا نہیں یہ جملہ سن کر کہہ دیا کہ اللہ فقیر اور ہم غنی ہیں جو ہم سے قرض مانگتا ہے۔ سبحان اللہ اس آیت میں اللہ کی راہ میں دینے کی کس قدر بلیغ تاکید کی گئی اور کن کن پیرایوں میں اول یہ کہ مسکین کو دینا ہم کو قرض دینا ہے۔ دوم یہ کہ ہم دگنا کر کے دیتے ہیں۔ سوم یہ کہ اس کے سوا اور بھی عمدہ اجر دیتے ہیں۔ چہارم من ذا الذی استفہام کیا کہ کون ہے جو ہمیں قرض دے گویا ہم مانگ رہے ہیں پھر اس پر بھی جو کوئی نہ دے تو بڑا ہی بدبخت ازلی ہے۔ اے میرے اللہ آپ پر جان اور مال فدا 1 ؎ ہے جو تو نے ہی دیا ہے۔ یہ تمام صفات خلفائِ راشدین ؓ عہنم میں موجود تھے۔ فتح مکہ سے پہلے وہ ایمان لائے، جہاد بھی کیا، اللہ کی راہ میں مال بھی دیا۔ خصوصاً صدیق اکبر ؓ نے پھر امامت کے مسئلے سے (جس کا مدار انتخاب پر تھا جو حسن خدمات و لیاقت و کارگزاری اور فضل علم و صحبت پر تھا جس لیے ان تمام صحابہ ؓ نے ابوبکر ؓ کو منتخب کیا) کس لیے ان کو کافرومرتد اور غاصب بنایا جائے ؟ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بعد میں خلیفہ بنانے سے ان پر جھوٹے الزام لگائے جائیں سخت بےجا بات ہے۔ 1 ؎ ہمارے پاس ہے کیا جو کریں فدا تم پہ کہ ایک زندگی مستعار رکھتے ہیں
Top