Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ
: تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے
لِلّٰهِ
: اللہ ہی کے لیے
مَا فِي السَّمٰوٰتِ
: ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے
وَالْاَرْضِ ۭ
: اور زمین میں
وَهُوَ الْعَزِيْزُ
: اور وہ زبردست ہے
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا ہے
اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے
ترکیب : یحییٰ ویمیت فی محل الرفع لکونہ جزا المبتداء المحذوف ای ھو۔ تفسیر : اس سے پہلی سورة کو اپنے نام پاک کی تسبیح کرنے پر تمام کیا تھا فسبح باسم ربک العظیم۔ اب اس سورة کی ابتداء میں اس تسبیح کی کیفیت بیان فرماتا ہے۔ فقال سبح للہ مافی السمٰوات والارض کہ تمہیں پر کچھ موقوف نہیں آسمانوں کے رہنے والے فرشتے (اور روحانیات حضرات انبیاء و اولیاء کرام) اور زمین کے رہنے والے ملائکہ و جمادات و نباتات اور کل موجودات اپنی زبان حال سے اس کی یکتائی و صنعت و ربوبیت و کمال کی گواہی دے رہے ہیں اور یہی ان کی تسبیح و تقدیس ہے۔ جو لوگ زبان سے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں مومنین و ملائکہ کرام خواہ وہ ارضی ہوں خواہ سماوی وہ زبان سے باقی کا دلالت حال تسبیح کر رہا ہے۔ یہ لفظ تسبیح قرآن مجید میں مختلف صیغوں میں آیا ہے۔ اس سورة اور سورة حشر اور صف وغیرہ میں بصیغہ ماضی اور سورة جمعہ و تغابن وغیرہ میں بلفظ مضارع یسبح اور بعض میں بصیغہ امر سبح جیسا کہ سورة اعلیٰ اور سورة بنی اسرائیل کے اول میں بصیغہ مصدر سبحان الذی اسریٰ بعبدہ۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی تسبیح و تقدیس کسی وقت کسی حال میں منقطع نہیں بلکہ ہر حال میں ہونی چاہیے گویا یوں فرمایا، اس کی تسبیح و تقدیس ہوتی آئی ہے اور ہوگی اور ہونی چاہیے اور ہوتی رہتی ہے اور اے لوگو ! تم بھی کرو۔ اور مافی السمٰوات الخ میں یہ اشارہ ہے اے بنی آدم ! کچھ تمہیں پر اس کی تسبیح و تقدیس موقوف نہیں اس کی تسبیح و تقدیس کرنے والے بہت ہیں آسمانوں کے فرشتے اور دیگر چیزیں اور زمین کے رہنے والے اور دریا کے جانور اور بیابانوں کے وحوش و طیور سوراخوں کے چیونٹے اور درند و پرند، نباتات و جمادات۔ اگر سننے والے کے کان ہوں تو عرش سے لے کر فرش تک اس کی تسبیح و تقدیس کا غلغلہ اور شور ہے۔ خاصان خدا نے کبھی جمادات کی تسبیح بھی سنی ہے۔ بخاری (رح) نے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے کی جس وقت کہ وہ کھایا جاتا تھا تسبیح سنا کرتے تھے۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے سامنے اور غرض اس کہنے سے کہ اسی کی ہر چیز تسبیح کرتی ہے خصوصاً شروع سورة میں یہ ہے کہ اے مشرکو، اے جاہلو، تم نے جو اپنے اوہام باطلہ اور قیاسات فاسدہ سے خدا تعالیٰ کی ذات پاک میں عیوب تجویز کر رکھے ہیں، کسی نے اس کے لیے بیٹیاں کسی نے بیٹا، کسی نے اس کے کارخانہ قضاء و قدر میں شریک سمجھ رکھے ہیں، کسی نے انسان کو خدا کا ہم شکل قرار دیا ہے، کسی نے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد اس کے لیے تکان ثابت کیا ہے کسی نے اس کو بعض امور کی نسبت عاجز تصور کیا ہے، کسی نے اس کو بغیر وسائل کے ہندوؤں کی دعائیں سننے سے بہرا قرار دے کر وسائل تجویز کر کے ان کی پرستش اختیار کی ہے، کسی نے اس کو عالم پیدا کرنے کے بعد معطل ٹھہرا رکھا ہے، وہ ان سب باتوں سے پاک ہے، اس کی پاکی زمین و آسمان کی ہر ایک چیز بیان کر رہی ہے۔ اس کے بعد وہ ان امور کے ابطال اور اپنی قدرت و کمال کے ثبوت میں جو تسبیح و تقدیس کے اسباب ہیں چند دلائل بیان فرماتا ہے مگر اسی سادے اور دل پسند طریق سے۔ دلیل اول وھو العزیز الحکیم تسبیح تنزیہ یعنی برائیوں سے مبرا کرنا۔ یہ دو باتیں چاہتا ہے اول یہ کہ جس کو عیوب سے مبرا کہا جاتا ہے وہ بےانتہا قدرت کاملہ رکھتا ہو کہ جس کے سبب کوئی عیب و نقص عجز کی وجہ سے اس کے گرد نہیں آنے پاتا۔ اس میں بیشمار باتیں آگئیں جورو بچوں سے پاک ہونا جسم و مقضیات جسم اور ہر قسم کی شہوانی و نفسانی خواہشیں بھوک، پیاس، نیند، اونگھ، موت و بیماری کسی کام کے کرنے پر بغیر کسی آلات و اسباب معین و مددگار کے قادر نہ ہونا سب سے پاک ہے۔ دوسری بات قدرت کے ساتھ حکمت بھی ہو کہ حقائق الاشیاء اور ہر چیز کی مناسب تدبیر آغازوانجام حاجات و عبادات ان کے دلی معاملات ‘ عالم کے انقلابات سب سے بخوبی واقفیت بھی ہو زور ہو اور حکمت و تدبیر نہ ہو وہ بھی بہت سے عیبوں کو پیدا کردیتا ہے۔ اس واقفیت کو حکمت کہتے ہیں۔ پہلی بات کے لیے العزیز دوسری کے لیے الحکیم فرما کر دعوے کو مدلل کردیا۔ اب رہی یہ بات کہ دراصل اس میں یہ دونوں وصف ہیں بھی یا نہیں ؟ اس کے ثبوت میں عالم کے تصرفات کو دلیل میں پیش کرتا ہے۔ فقال لہ ملک السمٰوات والارض کہ آسمانوں اور زمین پر اسی کی حکومت اور اسی کی سلطنت ہے۔ یہ بات ہر روز مشاہدے میں آرہی ہے کیونکہ یحییٰ و یمیت وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ گو عالم اسباب میں انسان اور حیوان اور جملہ موجودات کا وجود و عدم جس کو حیات و موت سے تعبیر کیا جاتا ہے بظاہر اسباب کی طرف منسوب ہے مگر جب عقل دوربین سے دیکھے گا تو ان جملہ اسباب کا سلسلہ اسی کی طرف جا کر منتہی ہوتا ہوا معلوم ہوگا جس کے لیے آخر یہی کہنا پڑے گا کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے۔ پھر جس کے قبضہ قدرت میں عالم کا ایجاد و انعدام ہے پھر اس کی کامل بادشاہی میں کیا کلام ہے ؟ کس بادشاہ کو رعیت پر یہ اختیارات حاصل ہیں ؟ اور لطف بلاغت یہ دیکھو کہ اس کو مضارع کے صیغوں سے بیان کیا تاکہ معلوم ہو کہ بالفعل یہی مارتا جلاتا ہے ہر روز یہ فعل جاری ہے اور رہے گا یہ نہیں کہ کرچکا جس میں کوئی کلام کرسکے۔ اس لیے اس بات کی آپ ہی تصریح بھی کرتا ہے۔ وھوعلیٰ کل شیئٍ قدیر کہ وہ ہر بات پر قادر ہے۔ پھر اس قدرت کاملہ کا اظہار اپنی چار صفتوں میں ثابت کرتا ہے فقال ھوالاول کہ وہ سب سے اول ہے اس سے پہلے کوئی نہیں کیونکہ ہر شے کا موجد ہے اور علت کا وجود جملہ معلومات سے مقدم ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء جب ہوتی کہ کوئی اس سے پہلے ہوتا پس وہ ازلی اور قدیم ہے۔ ذات وصفات میں اور جو کچھ ہے وہ حادث ہے ذات وصفات میں ان کی نیستی ان کی ہستی سے مقدم ہے اور اسی طرح وہ الآخر بھی ہے سب کے بعد وہی رہے گا۔ یعنی ابدی بھی ہے سب مٹ جائیں گے پر وہ رہے گا اور الظاھر اور وہ سب پر غالب اور بلند بھی ہے سب سے برتر ہے۔ یا یہ معنی کہ تجلیات اور موجودات کے پردوں میں سے ایسا ظاہر ہے کہ اس قدر کوئی چیز ظاہر نہیں۔ مصنوع جب اپنی خوبیوں کا جلوہ دکھاتا ہے اس سے پہلے اس کے صانع کی خوبی اور اس کا وجود جلوہ گر ہوتا ہے انہیں معنوں میں بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ میں جب کسی چیز کو دیکھتا ہوں سب سے پہلے اس میں اللہ کو دیکھتا ہوں ؎ کہ بچشمانِ دل مبیں جز دوست ہر چہ بینی بداں کہ مظہراوست باوجود اس کے الباطن صانع بھی ایسا ہے کہ کسی کو ان آنکھوں سے نظر نہیں آتا اس کی حقیقت ذات ادراک ابصار و عقول سے محتجب ہے۔ یا یوں کہو کہ جس طرح سب سے بلند اور اونچا ہے اسی طرح سب سے نیچا بھی وہی ہے۔ وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ ” اگر تم کنوئیں میں ڈول ڈالو گے تو وہ اللہ ہی پر جا کر پڑے گا۔ “ اس کے یہی معنی ہیں۔ وہ ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے احاطہ سے کوئی باہر نہیں، سب کو گھیرے ہوئے ہے۔ ترمذی و مسلم وغیرہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں ایک دعا کا تلقین فرمانا مذکور ہے۔ وہاں رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں اور یہی تفسیر کی ہے اور اسی طرح احمد و مسلم وغیرہ نے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور بھی حدیث نقل کی ہے جس میں ان چاروں لفظوں کے یہی معنی بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک پہلی بات کا ثبوت یعنی العزیز کی توضیح و تفسیر تھی مگر انہیں میں سے دوسرے وصف کا بھی جلوہ نمایاں تھا اس لیے اس کی بھی تصریح کردی وھو بکل شیء علیم یہ الحکیم کی تفسیر ہے اس کے بعد ایک گزشتہ اور ماضی فعل کو ذکر کرتا ہے جس سے اس کی کمال قدرت و حکمت کا اظہار ہوتا ہے۔ فقال ہوالذی خلق السمٰوات الخ کہ اسی نے تو آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں بنایا۔ اس کی تفسیر کئی جگہ ہوچکی ہے۔ ثم استویٰ علی العرش۔ اس کے بعد تخت حکومت پر تصرفات کرنے کو بیٹھا۔ اس کی بھی تفسیر و تحقیق ہوچکی۔ اس کے بعد پھر اپنی حکمت و علم کا اظہار کرتا ہے یعلم ما یلج فی الارض کہ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں گھستا ہے۔ پانی اور نباتات کے تخم اور خزانے اور مردوں کی لاشیں وغیرہ ومایخرج منہا اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اس کو بھی جانتا ہے نباتات معادن وغیرہ و ماینزل من السماء اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے۔ ملائکہ، رحمت، عذاب، بارش، احکام حوادث وغیرہ سب کو جانتا ہے۔ ومایعرج فیہا اور جو کچھ نیچے سے اوپر چڑھ کرجاتا ہے بندوں کے نیک اعمال اور نیک روحیں اور بعض انبیاء زندہ اور بندوں کی دعائیں اور زمین کے ابخرات سب کو جانتا ہے اور انہیں پر کیا موقوف ہے۔ وھومعکم اینما کنتم۔ وہ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے واللہ بماتعملون بصیر اور جو کچھ تم کر رہے ہو وہ دیکھ رہا ہے۔ پھر اسی جملہ کا اگلے مضمون کی تمہید بنا کر اعادہ کرتا ہے۔ فقال ملک السمٰوات والارض اس کے بعد پھر اپنی قوت و حکمت کا اظہار کرتا ہے۔ فقال والی اللہ ترجع الامور عالم سفلی سے لے کر علوی تک اور جسمانی سے لے کر روحانی تک جن کے کاروبار اسباب پر مبنی ہیں۔ سب اسباب اسی مسبب الاسباب کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی قبضہ قدرت میں ہیں اور تمام کائنات کا وہی مرکز اصلی ہے سب کا میلان اسی طرف ہے۔ ع ہمہ روسوئے توبودو ہمہ سو روئے توبود۔ مگر بہیمیت کے ظلمات اور رسم و رواج کی تقلید کے بغیر اس کے رستے میں حائل ہو کر اس کو اس طرف جانے سے روک دیتے ہیں انہیں کے دور کرنے کو دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ سب چیزوں کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یعنی اس کے ہاتھ میں ہونا بیان فرماتا تھا اس کے بعد چند بڑی بڑی باتوں کا اس کی طرف رجوع کرنا فرماتا ہے فقال یولج الیل فی النہار الخ۔ رات دن کو دیکھو کہ وہ قادر مطلق ان کو کس طرح سے الٹی پلٹی دیا کرتا ہے۔ تمام جہان منور ہوتا ہے دن کی بادشاہت زور پر ہوتی ہے کہ اس کو نیست کر کے رات کو اس میں داخل کردیتا ہے پھر رات دخیل ہو کر تمام جہان پر اپنا قبضہ کرلیتی ہے۔ اس کے بعد پھر دن کو اس میں داخل کردیتا ہے۔ یہ کیسا انقلاب عظیم ہے پھر کس کے قبضہ میں ہے ؟ اسی کے۔ آفتاب بھی اس کے حکم سے چلتا ہے، اس کی لگام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس کی قدرت کا نمونہ ہے اور علم کی یہ کیفیت ہے کہ وھو علیم بذات الصدور وہ ان چیزوں کو بھی تو جانتا ہے جو سینہ میں ہوتی ہیں یعنی دل میں مخفی ہوتی ہیں۔ دل کی بات کو سینے کی بات بھی محاورہ عرب میں کہتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ دل سینہ میں ہوتا ہے انسان کے تمام مخفی ارادے اور خطرات بھی اس کے سامنے حاضر ہیں۔ جب یہ ہے تو انسان کو اپنے دل میں سب سے عمدہ خیال اور سب سے اعلیٰ اعتقاد رکھنا چاہئے۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا آمنو باللّٰہ ورسولہ کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو نجات اور حیات ابدی کا ذریعہ ہے اور دوسری زندگانی کی روح ہے۔ مگر صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں اس کے بعد کچھ عمدہ کام بھی کرنے چاہییں اور اعمال میں خلق خدا کے ساتھ سلوک کرنا بڑا عمدہ کام ہے اس لیے اسی کو ذکر کیا۔ وانفقوا الخ کہ خیرات بھی کرو۔ ابتدائِ اسلام میں جب کہ آنحضرت ﷺ کفار قریش کی سخت کشاکش میں تھے، ایمان لانا اور خیرات کرنا ہی سکھایا جاتا تھا اور باتوں کے ماننے کی ابھی ان میں صلاحیت نہ تھی جب صلاحیت بڑھتی گئی اور احکام بھی تکمیل سعادت کے لیے فرض ہوتے گئے۔ اس لیے اس آیت میں ان کفار قریش کو انہیں دو باتوں کی طرف بلایا جاتا ہے مگر مال خرچ کرنا آسان کام نہیں۔ طبیعت کا بخل مانع آیا کرتا ہے اس لیے مختلف طور سے اس کی تاکید کی جاتی ہے۔ (1) مماجعلکم مستخلفین فیہ اس مال میں سے دو جس کا خدا نے تم کو خلیفہ یا وارث بنایا، باپ دادا کی میراث یا کسی کے عطیہ یا کسی سبب 1 ؎ سے حاصل ہونا۔ کل وہ غیر کے پاس تھا آج اس کے پاس یہ اس کا خلیفہ یعنی قائم مقام ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سدا کسی کے پاس نہیں رہا ہے نہ تمہارے پاس رہے گا آنی جانی چیز ہے اس میں جو کچھ ہو سکے اپنے عہد میں نیکی کرلو مرنے سے یا دیگر اسباب سے یہ دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے۔ (2) فالذین آمنوا الخ کہ جو ایمان لائیں گے اور اللہ کے رستے میں دیں گے ان کے لیے بڑا عمدہ بدلہ ملے گا یہ ضائع نہ جائے گا۔ کبھی اس دنیا میں بھی مل جاتا ہے ورنہ اکثر تو اس جہان میں ملتا ہے جہاں یہ مر کرجاتا ہے اور دوسری زندگی حاصل کرتا ہے۔ اس لیے نیک لوگوں نے جو کچھ ملا اللہ کی راہ میں صرف کردیا۔ ایک صحابی ؓ سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے گھر میں تمہارا کچھ مال و اسباب دکھائی نہیں دیتا کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا بھائی یہ میرا گھر نہیں مسافرخانہ ہے چند روزہ مہمان ہوں، مجھے جو ملتا ہے اس کو اپنے اصلی گھر میں بھیج دیتا ہوں جس کو نہ کوئی چور لے سکے نہ ظالم چھین سکے۔ جواب سن کر سائل پھوٹ پھوٹ کر اپنی غفلت اور حبِّ مال پر رونے لگا۔ یہاں سے ایمان کی بھی تاکید شروع ہوگئی کیونکہ یہ نہیں تو خیرات کا بھی نفع نہیں اور یہی اعتقاد تو اس کو خیرات پر حرکت دیتا ہے اس لیے ایمان کی تاکید کرتا ہے۔ فقال وما لکم لاتؤمنون الخ کہ تم کس لیے ایمان نہیں لاتے حالانکہ اللہ کا رسول تم کو ایمان لانے کے لیے کہہ رہا ہے اور تم سے عہد بھی لے لیا ہے یا تو وہی عہد ِ ازلی جو روحوں سے لیا گیا تھا یا دنیا میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا حاصل کرنا اور روزمرہ صدہا دلائل دیکھنا عقل سلیم کا عہد ہے کہ اپنے اللہ پر ایمان لائے۔ ان کنتم مؤمنین اگر تم کو ایمان لانا منظور ہے تو کس لیے نہیں لاتے۔ بعض کہتے ہیں ان الخ جملہ شرطیہ ہے جزا محذوف ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تم کو اجر عظیم ملے گا۔ ھوالذی ینزل الخ کہ اللہ جس پر ایمان 2 ؎ لانا چاہیے وہ ہے کہ جو اپنے بندے محمد ﷺ پر آیتیں نازل کر رہا ہے خاص تمہارے بھلے کو کہ تم کو گمراہی کی اندھیریوں میں سے نکال کر ہدایت وسعادت کی روشنی میں لائے اور اللہ تم پر بڑا مہربان ہے جو اس نے ایمان لانے کے لیے رسول بھیجا ورنہ اس کو کیا پروا تھی۔ یہ بیچ میں تاکیدیں ایمان کے لیے تھیں جو مقصد اصلی ہے۔ (3) تاکیدہ ومالکم الاتنْفِقُوْا الخ خیرات کے لیے کہ تم کس لیے خرچ نہیں کرتے آخر چھوڑ جاؤ گے سب اللہ کے لیے رہ جائے گا۔ یا یہ کہ سب مال اللہ کا ہے اس کے بدلے میں تمہیں اور دے گا۔ (4) پھر خیرات کے مراتب بیان فرماتا ہے۔ لایستوی کہ خیرات اگرچہ ہر حال میں بہتر ہے مگر بعض اوقات کہ جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کا زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ ابتدائِ اسلام میں مکہ فتح ہونے سے پہلے فقرائِ اسلام پر بڑی تنگدستی تھی اس وقت کا دیا بعد کے دیے کے برابر نہیں جس نے اس وقت اللہ کی راہ میں دیا اور جہاد کیا، جان اور مال دونوں کام میں لایا اس کا اللہ کے نزدیک بڑا درجہ ہے مگر جس نے بعد میں بھی ایسا کیا ثواب اور نیک وعدہ اس کے لیے بھی کیا مگر مدارنیت اور خلوص پر ہے اس لیے فرما دیا۔ واللّٰہ بماتعملون خبیر کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ جانتا ہے۔ اس میں یہ بھی رمز ہے کہ اس سے مت ڈرو کہ ہمارے دین کا اس کو علم نہ ہوگا پھر بدلہ کیونکر ملے گا جیسا کہ دنیاوی بادشاہوں کے کارگزاروں کو فکر ہوتی ہے جس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ آقا کو یہ کارگزاری معلوم ہوجائے۔ (5) من ذا الذی الخ۔ یہ اور زیادہ اللہ کی راہ میں دینے کی تحریک ہے یعنی جو کچھ تم دیتے ہو اللہ کو قرض دیتے ہو جو بڑا غنی اور دگنا کر کے دینے والا ہے۔ پھر کوئی ہے جو اس کو قرض دے جو دگنا واپس دے اور اپنی طرف سے عمدہ اجر بھی دے ؟ ہرچند خدا تعالیٰ کو کسی کی کچھ حاجت نہیں نہ وہ محتاج ہے، نہ اس کو قرض لینے کی حاجت ہے مگر یہ اس کی رحیمی ہے کہ جو کوئی اس کے لیے کسی حاجت مند کو دیتا ہے گویا خدا تعالیٰ اپنی ضمانت دیتا ہے کہ یہ اس نے ہم کو قرض دیا ہم دگنا کر کے دیں گے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے قیامت میں 1 ؎ تجارت ہو یا حرفہ۔ 12 منہ 2 ؎ گمراہی کے بہت اقسام تھے ہر ایک کی جداگانہ ظلمت تھی جس میں اس عہد کے لوگ مبتلا تھے اس لیے ظلمات جمع کا صیغہ ہے اور ایمان و ہدایت کی روشنی ایک ہی نور ہے اس لیے مفرد لایا۔ 12 منہ خدا تعالیٰ فرمائے گا بندے میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا کہ الٰہی تو ان باتوں سے پاک تھا۔ فرمائے گا تیرے پاس میرا بندہ بیمار تھا تو اس کی عیادت کرتا گویا میری عیادت کرتا اور میرا بندہ تیرے پاس بھوکا تھا اس کو کھانا کھلاتا گویا مجھ کو کھلاتا کیونکہ یہ سب کام میرے ہی واسطے ہوتے۔ اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسکین پر اس کے الطاف کی تجلی ہوتی ہے اور ہر دردمند پر اس لیے یہ مصائب خاص لوگوں پر نازل ہوتی ہیں یہودبدبخت نے اس بات کو سمجھا نہیں یہ جملہ سن کر کہہ دیا کہ اللہ فقیر اور ہم غنی ہیں جو ہم سے قرض مانگتا ہے۔ سبحان اللہ اس آیت میں اللہ کی راہ میں دینے کی کس قدر بلیغ تاکید کی گئی اور کن کن پیرایوں میں اول یہ کہ مسکین کو دینا ہم کو قرض دینا ہے۔ دوم یہ کہ ہم دگنا کر کے دیتے ہیں۔ سوم یہ کہ اس کے سوا اور بھی عمدہ اجر دیتے ہیں۔ چہارم من ذا الذی استفہام کیا کہ کون ہے جو ہمیں قرض دے گویا ہم مانگ رہے ہیں پھر اس پر بھی جو کوئی نہ دے تو بڑا ہی بدبخت ازلی ہے۔ اے میرے اللہ آپ پر جان اور مال فدا 1 ؎ ہے جو تو نے ہی دیا ہے۔ یہ تمام صفات خلفائِ راشدین ؓ عہنم میں موجود تھے۔ فتح مکہ سے پہلے وہ ایمان لائے، جہاد بھی کیا، اللہ کی راہ میں مال بھی دیا۔ خصوصاً صدیق اکبر ؓ نے پھر امامت کے مسئلے سے (جس کا مدار انتخاب پر تھا جو حسن خدمات و لیاقت و کارگزاری اور فضل علم و صحبت پر تھا جس لیے ان تمام صحابہ ؓ نے ابوبکر ؓ کو منتخب کیا) کس لیے ان کو کافرومرتد اور غاصب بنایا جائے ؟ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بعد میں خلیفہ بنانے سے ان پر جھوٹے الزام لگائے جائیں سخت بےجا بات ہے۔ 1 ؎ ہمارے پاس ہے کیا جو کریں فدا تم پہ کہ ایک زندگی مستعار رکھتے ہیں
Top