بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اللہ کی تقدیس کرتے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے
ترکیب : مانعتھم بالرفع علی انہ خبر۔ مقدم و حصونھم مبتداء موخر والجملۃ خبران من اللہ متعلق بالخبر۔ ویمکن ان یکون مانعتھم خبران و حصونھم مرتفع علیٰ الفاعلیۃ یخربون الجملۃ حال او تفسیر للرعب فلامحل لھا۔ وقریٔ یخربون بالتشدید التکثیر وقیل الاحزاب التعطیل والخریب الھدم۔ تفسیر : پچھلے سورة میں منافقوں کے افعال ناشائستہ کا ذکر تھا اس سورة میں ان کے معین و مددگار یہود کی نالائق حرکت اور اس کا یہ نتیجہ ذکر فرماتا ہے کہ عبرت ہو فقال سبح اللہ۔ ان آیات میں اور نیز ان کے بعد آیات میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ مورخین نے یوں بیان کیا ہے کہ جب پچھلے زمانوں میں یہود پر مصائب پڑے کچھ لوگ ان میں کے عرب میں بھی آرہے تھے۔ بیشتر مدینہ منورہ کے آس پاس 1 ؎ آب سے تھے۔ اس خیال سے کہ وہ نبی جس کی موسیٰ (علیہ السلام) نے خبر دی ہے یہیں آ کر رہے گا اور یہی شہر اس آفتاب کا تجلی گاہ بنے گا۔ منجملہ ان کے مدینہ کے آس پاس ایک ایک فرسنگ کے فاصلے سے دو فرقے یہود کے تھے۔ ایک بنی قریظہ دوسرے بنی نضیر کہلاتے تھے۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے آئے تو یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے حلیف 2 ؎ ہوگئے تھے مگر احد کی جنگ میں جو مسلمانوں کو کفار قریش سے ہزیمت پہنچی تب سے بنی نضیر کے دماغوں میں بھی سرکشی کا مادہ بھر گیا۔ اگرچہ اس سے پہلے بدر کی لڑائی کے بعد ابوسفیان سردار قریش کو بنی نضیر کے سردار سلام بن مشکم نے اپنے ہاں مہمان رکھا تھا جو آنحضرت ﷺ پر شب خون مارنے آیا تھا۔ آخر اس کو مدد دی اور ابوسفیان نے اس کی مدد سے مدینے کے بعض مسلمانوں پر جو اپنے کھیتوں میں مصروف تھے رات کو حملہ کیا، مسلمانوں نے خبر پا کر تعاقب کیا۔ یہ تو تھا ہی اب ایک اور نئی بات پیدا ہوئی۔ آنحضرت ﷺ بنی نضیر کی گڑھی میں مع چند صحابہ ؓ اسی عہدنامے اور معاہدے کی رو سے ایک مسلمان کو خون بہا دینا تھا اس روپے کے چندے میں انہیں بھی شریک کرنے تشریف لائے تھے۔ حضرت ﷺ سے کہا آپ تشریف رکھئے ہم چندہ دیتے ہیں اور بہت کچھ مدد دیں گے۔ آنحضرت ﷺ گڑھی کی دیوار سے کمر لگا کر بیٹھ گئے۔ یہود اندر گئے، جا کر تجویز کی کہ اس کے اوپر سے بھاری پتھر ڈال دو مر کر رہ جائے۔ جھگڑا ہی تمام ہو اس کی خاطر سے بھلا ہم قریش سے اور تمام عرب سے بگاڑ کر کہاں رہیں گے ؟ (جب بدبختی سوار ہوتی ہے تو ایسی ہی کمینگی کی باتیں سوجھا کرتی ہیں) وہ ہنوز اپنا ارادہ پورا کرنے نہ پائے تھے کہ خدا تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو خبر کی، آپ وہاں سے چلے گئے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) آپ کے حق میں فرما ہی چکے تھے کہ جو آپ پر گرے گا چورا چورا ہوجائے گا اور جس پر آپ گریں گے اس کو بھی چورا کردیں گے۔ بموجب اس بشارت کے ان متواتر بدذاتیوں پر قہرمانِ الٰہی کب صبر کر کے پایہ تخت اسلام میں ان پشتینی بدذاتوں اور ازلی منحوسوں کو فتنہ انگیزی کی مہلت دے سکتا تھا ؟ اس لیے آنحضرت ﷺ نے بحکم الٰہی اعلان کردیا کہ اب ہمارا تمہارا عہد باقی نہیں رہا اب تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ پھر جنگ ہے۔ ان مغروروں نے قریش اور مدینے کے منافقوں کی مدد کے بھروسے پر کہہ دیا اچھا جنگ ہے آئیے آپ کیا کرسکتے ہیں ؟ اپنی گڑھی کے دروازے بند کر کے بیٹھ گئے۔ یہ گڑھی بھی مستحکم اور بلند تھی۔ لشکر اسلام نے محاصرہ کیا۔ گیارہ روز تک سخت محاصرہ رہا۔ یہود کی باہر سے کوئی مدد نہ آئی ادھر مسلمانوں نے ان کے باغوں کو جن میں بہت عمدہ کھجوریں تھیں کاٹنا اور کھیتوں کو جلانا شروع کیا (ان کی گڑھی سے لے کر مدینے تک باغات تھے) آخر مجبور ہو کر پیغام بھیجا کہ امن دیجئے۔ آپ جو کہیں گے ہم کریں گے۔ آنحضرت ﷺ نے امن دیا اور یہ حکم دیا کہ اپنا اس قدر مال واسباب کہ تم سے چل سکے یا ایک اونٹ پر لد سکے لے جائو۔ یہود نے منظور کیا اور دس روز کی مہلت مانگی۔ اس عرصے میں اپنا اسباب لادنا شروع کیا اور اس جلن کے مارے کہ بعد میں مسلمان ہمارے گھروں میں نہ رہیں اور اس لالچ سے بھی کہ اپنا کڑی کاٹھ کیوں چھوڑ دیں، مکانوں کو گرانا شروع کردیا۔ آپ بھی ڈھاتے تھے اور مدینے کے مسلمانوں سے بھی اس کام میں مدد لیتے تھے۔ پھر اکثر تواریحاواذراعات کی طرف چلے گئے (یہ شام کے مقامات ہیں) اور ابی الحقیق اور حیی بن اخطب کا خاندان کچھ تو خیبر میں رہا اور کچھ حیرہ چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد یہ سورة نازل ہوئی۔ ان آیات میں خدا تعالیٰ اپنی شان کبریائی جتلا کر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس قادر مطلق نے ان سرکش یہود کو حشر سے پہلے ہی ان کے گھروں سے نکلوا دیا۔ محاصرہ سے پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم حشر تک بھی اپنے گھربار نہ چھوڑیں گے۔ لو اس نے حشر سے پہلے ہی گھربار چھڑوا دیے۔ ان کی بلند اور مستحکم گڑھی کو دیکھ کر ظاہر میں مسلمان یہ خیال کرتے تھے کہ یہ نہیں نکل سکتے۔ ادھر خود ان کو بھی یہ غرور تھا کہ ہماری گڑھی اور مستحکم قلعہ ہم کو ہر قسم کی آفت سے بچا لے گا ہم کو اس میں کون مار سکتا ہے ؟ مگر ان کو اس بدروز کا خیال بھی نہ تھا کہ محاصرہ ہوتے ہی ان کے دلوں میں رعب بھر گیا، نامردی چھا گئی، امان مانگ کر جلاوطنی پر راضی ہوئے۔ اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے مکانوں کو کس نامرادی کے ساتھ آپ ڈھانے لگے۔ یہ بڑی عبرت کی بات ہے آنکھ والوں کے لیے کہ آسمانی حکم کا مقابلہ ایسے برے نتیجے پیدا کرتا ہے۔ پیغمبر ﷺ سے دغا کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ کسی سے دوستی کا عہد مستحکم باندھ کر مکاری و عیاری کرنا ضرور برا دن دکھاتی ہے۔ دنیا اور اس کے سامان دل لگانے کے قابل نہیں۔ کل کس شادمانی اور کن کن میٹھی امیدوں سے یہ مکانات بنا رہے تھے اور کیا کیا خیالات پکا رہے تھے۔ آج کس حسرت و یاس کے ہاتھوں سے ڈھا رہے ہیں۔ عبرت، عبرت ! پچھلی آیتوں کا یہ مطلب صاف صاف تھا۔ اب ہم مفسرین کی موشگافیاں بھی نقل کرتے ہیں اور آیات میں جو اسرار ہیں ان کو بھی دکھاتے ہیں۔ سبح اللہ۔ تسبیح تنزیہ و تقدیس۔ یعنی اللہ کی تقدیس تمام آسمانوں اور زمین کے رہنے والے کرتے ہیں۔ شریعت و نبی بھیجنے سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ان کی عبادت کا حاجتمند ہے بلکہ انہیں کے فائدے کے لیے۔ آسمانوں کے ستارے اور ان کے اندر کی کائناٹ اور اسی طرح زمین کے رہنے والے سب زبان حال سے اپنے خالق کی یکتائی اور شان بیان کر رہے ہیں۔ گویا ہر شے اہل بصیرت کے لیے اس کے کمالات اور عظمت شان کا آئینہ اور مکمل دفتر ہے اور یہی اس کی تسبیح و تقدیسِ بےاختیاری ہے اور ملائکہ اور ارواح طیبہ آسمانوں میں نیک لوگ زمین پر اس کی تسبیح و تقدیس بالارادہ کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین اور ان کے اندر کی جملہ کائنات کا اس طرزورویہ فطری پر لگا رہنا کہ جن پر ان کو ان کے خالق ومالک نے لگا دیا ہے، ان کی تسبیح و تقدیس ہے۔ تمام کائنات پر اس کے احکام جبروتی نافذ ہیں۔ طوعاً و کرھاً سب ان کو تسلیم کر رہے ہیں یہ بھی تسبیح و تقدیس ہے۔ اس جملہ میں اس کی کمال عظمت و شوکت و توانائی بیان ہوئی ہے اس کے بعد اس کی جبروتیت و قہاریت کی ایک خاص بات ذکر کرتا ہے کہ ھوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتاب کہ وہی جبار و توانا ہے کہ جس نے اہل کتاب کے کافروں کو حشر سے پہلے ان کو گھروں سے نکال دیا۔ کفروا میں اشارہ ہے کہ یہ کفرو بےدینی اس سزا کی باعث ہوئی اور اخرج کے لفظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ ایک تو ان کے باپ دادا تھے کہ جو توریت میں لکھا دیکھ کر نبی عربی (علیہ السلام) کے ظہور کے انتظار میں بامید اعانت و اطاعت یہاں آئے تھے ایک یہ ان کی نااہل اولاد ہے کہ اس سے مخالفت کرنے کے جرم میں نکالے گئے۔ لاول الحشر کے صاف معنی ہی ہیں جو ہم بیان کر آئے ہیں لیکن بعض مفسرین نے اور بھی بیان کئے ہیں۔ حشر جمع کرنا یعنی اس دن سے پہلے کہ ان پر مسلمانوں کے لشکر جمع ہوں جیسا کہ ہرقل روم و کسریِٰ فارس پر ہوئے اس سے پہلے ہی آسانی سے نکالے گئے یا یہ معنی کہ نبی ﷺ کے معین و مددگار جمع ہوں اس سے پہلے یہ کمبخت نکالے گئے۔ ان میں شریک ہونا جس لیے یہاں آئے تھے نصیب نہ ہوا یا یہ کہ معین و مددگار جمع کرنے سے پہلے نکالے گئے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ اپنے قلعہ پر بڑا گھمنڈ تھا ناگہانی بلا کی خبر بھی نہ تھی۔ 1 ؎ خیبر بھی مدینے سے پاس ہے وہاں بھی حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل کے یہودی رہتے تھے بنی قینقاع اور بنی قریظہ اور بنی نضیر تو بہت ہی قریب تھے۔ 12 منہ 2 ؎ عرب میں قدیم دستور تھا کہ جب دو شخص ‘ دو قوم باہم ایک عہد نامہ حلفیہ قائم کرلیتے تھے کہ ہماری جان و مال تمہاری تمہاری جان و مال ہماری تو ان کو حلیف کہتے تھے ان میں حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ اتحاد و حمایت ہوتی تھی اس طوائف الملوک کے زمانے میں خانہ بدوش قوموں سے بچنے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مستحکم قلعہ متصور نہیں ہوسکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ سے بنی نضیر و بنی قریظہ نے حلف کرکے عہد باندھا تھا جو بعد میں خلاف کیا اور بہت ہی برے طور پر نالائقیاں اور بدذاتیاں جس کی سزا قانون الٰہی میں ضروری تھی بنی نضیر نکالے گئے بنی قریظہ غزوہ احزاب کے بعد جو اس واقعہ کے بعد ہوا ہے (شاید دو برس بعد) موذی سانپ اور زہریلے جانور کی طرح قتل کیے گئے اور ان کے ناپاک اور زہریلے وجود سے دنیا کو پاک کرنا حکمت آسمانی کا مقتضی ہی تھا جو واقع ہوا اس کو پیغمبر (علیہ السلام) کی رحم دلی روک نہیں سکتی تھی اس زمانے میں جب مہذب گورنمنٹ کو رٹ مارشل لاء (قانونی مجلس) کے بعد رحم دلی پر گولیاں مارنا مصلحت و حکمت جانتی ہیں تو اس حکم پر کیا اعتراض ہے۔ 12 منہ
Top