Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ : تحقیق خَسِرَ : گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ : ملنا اللّٰهِ : اللہ حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمُ : آپ پہنچی ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰحَسْرَتَنَا : ہائے ہم پر افسوس عَلٰي : پر مَا فَرَّطْنَا : جو ہم نے کو تا ہی کی فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ يَحْمِلُوْنَ : اٹھائے ہوں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ عَلٰي : پر ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) اَلَا : آگاہ رہو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ اٹھائیں گے
بیشک وہ تو خرابی میں پڑگئے جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھوٹ جانا 1 ؎۔ یہاں تک کہ جب ان پر وہ گھڑی اچانک آپہنچے گی تو کہیں گے افسوس ہماری کوتاہی پر (جو ہم نے قیامت کے بارے میں) کی اور وہ اپنے بوجھوں (گناہوں) کو اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے۔ دیکھو بہت ہی بڑا بوجھ ہوگا جس کو وہ اٹھائے پھریں گے
1 ؎ یعنی یہ انکار قیامت اسی وقت تک ہے کہ قیامت نہیں آتی۔ پھر جب اچانک آگئی تو حسرت کریں گے اور پیٹھ پر گناہوں کا پشتارا ہوگا۔ 12 منہ 2 ؎ وزر کی جمع اوزار ہے جس کے معنی بار۔ چونکہ وزیر بادشاہ کے تمام کاروباراٹھاتا ہے اس لئے اس کو بھی وزیر کہتے ہیں۔ 12 منہ تفسیر : قیامت کے منکروں کو ایک اور طور سے نادم کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ جو اللہ سے ملنے کے منکر ہیں ٗ خسارہ میں پڑگئے کیونکہ جب وہ ساعت موت جو قیامت کبریٰ کا مقدمہ ہے یکایک آجاوے گی تو حیرت کریں گے اس وجہ سے کہ قیامت کا تو ان کو یقین ہی نہیں اور قاعدہ ہے کہ جس چیز کا یقین نہیں ہوتا اس کے لئے کوئی سامان کافی نہیں کیا جاتا۔ ایسی حالت میں وہ دنیا کے لذات اور یہاں کی آسائش و کامیابی کے لئے ہی دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ آخرت کے لئے کوئی سامان نہیں کرتا۔ ایسی حالت میں موت کا آجانا گویا ایک ایسی عظیم الشان مہم کا پیش آجانا ہے کہ جس کے لئے کچھ بھی سامان نہیں کیا گیا۔ ایسے وقت میں کس قدر تاسف ہوتا ہے یا حسرتنا علی مافرطنا فیہا۔ دوم وھم یحملون اوزارھم علی ظہورھم 2 ؎ کہ وہ جو انہوں نے گناہ کمائے ہیں اور یا جو کچھ حسرت و افسوس کا انبار ہے سب کا بوجھ ان کی پیٹھ پر لدا ہوگا جو نہایت برا بوجھ ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال مرنے کے بعد متشکل ہو کر نظرآویں گے۔ برے اعمال اس پر کریہہ شکل میں سوار ہوں گے۔ اچھے اعمال کے مراکب حسنہ پر یہ سوار ہوگا اور وہ اس کے جلیس و انیس و رفیق بھی ہوجاویں گے۔ بس اس سے زیادہ کون سے نقصان کی صورت ہے کہ عمر چند روزہ جو سعادت جاودانی حاصل کرنے کے لئے ملی تھی اس کو شقاوت جاودانی حاصل کرنے میں صرف کردیا گویا پانی خریدنے کو نکلے تھے ‘ ان داموں سے زہر خرید کر پی لیا۔ قد خسروا چونکہ یہ کوتاہ نظر جو قیامت کا انکار کرتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ لذائذِ دنیا میں ایسے مدہوش ہیں کہ جیسے لڑکے کھیل کود میں مصروف ہو کر اپنے اصلی مقاصد سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے فرماتا ہے کہ ما الحیوۃ الدنیا۔ یہ دنیا کھیل کود ہے۔ یعنی جس طرح کھیل کود کا تھوڑا سا وقت ہوتا ہے جس کے بعد وقت ضائع کرنے پر افسوس ہوتا ہے۔ یہی حال دنیا کا ہے اور دار آخرت باقی اور وہاں کے لذائذ باقی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو جو مشرکین قیامت اور وہاں کے حساب و کتاب کی بابت جھٹلاتے تھے آپ کو بمقتضائے بشریت رنج ہوتا تھا۔ قد نعلم الخ میں خدا آنحضرت ﷺ کی تسلی کرتا ہے کہ ہمیں ان کا جھٹلانا اور آپ کا رنجیدہ ہونا معلوم ہے۔ وہ درحقیقت آپ کو نہیں بلکہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ رسول کی تکذیب دراصل اسی کی تکذیب ہے کہ جس کا وہ رسول ہے۔ سو آپ صبر کیجئے پہلے انبیاء کو بھی لوگوں نے جھٹلایا اور ایذائیں دی ہیں۔ پھر خدا کا وعدہ مقررہ جو کسی سے ٹل نہیں سکتا آگیا۔ وہ ہلاک ہوئے۔
Top