Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 66
وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّ١ؕ قُلْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
وَكَذَّبَ : اور جھٹلایا بِهٖ : اس کو قَوْمُكَ : تمہاری قوم وَهُوَ : حالانکہ وہ الْحَقُّ : حق قُلْ : آپ کہ دیں لَّسْتُ : میں نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور آپ کی قوم نے تو اس کو جھٹلا دیا حالانکہ وہ حق تھا تو کہہ دو میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔
ترکیب : لست علیکم متعلق ہے وکیل سے مستقر مبتداء لکل خبر من شیء من زائدہ ہے من حسابہم حال ہے والتقدیر شیء من حسابہم۔ ان تبسل مفعول لہ ہے ای مخافۃ ان تبسل الابسال المنع اے ترتھن فی جہنم بما کسبت (ابن عباس) وقیل ان تبسل اے لان لا تبسل اے لا تسلم نفس للہلاک بما کسبت۔ تفسیر : ان خوف و عذاب کی باتوں کو سن کر بجائے تصدیق و عبرت کے مکہ کے مشرکین ان کی تکذیب کرکے آنحضرت ﷺ سے عذاب آنے کا وعدہ لیتے تھے کہ اگر فلاں روز عذاب آیا تو ہم تیری مان لیں گے اور اسلام قبول کرلیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ سے فرماتا ہے کہ ان حق باتوں کو آپ کی قوم نے جھٹلا دیا۔ (بعض کہتے ہیں بہ کی ضمیر قرآن یا اسلام یا الیوم الموعود کی طرف پھرتی ہے) اور آپ پر ان کا ہدایت قبول کرانا لازم نہیں۔ آپ ان کے ذمہ دار نہیں اور رہا ان کے کہنے پر عذاب یا قیامت کا آنا سو یہ بھی نہیں کیونکہ ہر بات اور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے جو بہت سے مصالح اور انتظام عالم کے لحاظ سے ایک وقت پر منحصر ہے۔ تمہاری جلدی اور نادانی سے خدا ایسا نہیں کہ ابھی آسمان سے پتھر برسا کر یا آندھی یا زلزلہ کے صدمہ سے نسل قطع کر دے۔ واذارایت الذین یخوضون مشرکین مکہ تکذیب کے سوا قرآن اور ارکان اسلام کے ساتھ تمسخر بھی کیا کرتے تھے۔ ایک احمق نے تمسخر کی کوئی بات کہی۔ دس بیس لڑکوں نے اس کے ساتھ قہقہہ لگایا۔ اس سے مسلمانوں کو جو اتفاقاً ان کی مجالس میں جا بیٹھے تھے بڑا رنج ہوتا تھا اور طبیعت مکدر ہوتی تھی۔ اس لئے حکم آیا کہ تم وہاں نہ بیٹھو۔ اٹھ کھڑے ہوا کرو کیونکہ منع کرنے اور رد کی تو قدرت نہیں۔ اب وہاں بیٹھ کر ان کی محفل میں شریک ہونا اور اسلام کا مضحکہ اڑوانا ناروا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں لگ جاویں یا یوں کہو کہ ان کی محفل میں نہ بیٹھو تاکہ اس کے بعد وہ اور دوسری بات میں تمسخر نہ شروع کریں اور جو بھولے سے بیٹھ جائو جب یاد آجاوے تو ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ جب کفار کی یہ عادت تھی کہ وہ عموماً اپنے جلسوں میں اسلام کی ہجو کیا کرتے تھے اور ایسے جلسوں میں اہل اسلام کو ان کے ساتھ شریک ہونے کی ممانعت ہوگئی تو ان کو وعظ و نصیحت کیونکر ہو ؟ اس بات سے اہل اسلام کو فکر ہوئی کہ ہمارا منصب وعظ ترک ہوا۔ یہ لوگ جو معاصی و شرک کریں گے نہ ممانعت کرنے سے ہم سے بھی مؤاخذہ ہوگا۔ اس لئے یہ فرما دیا وما علی الذین یتقون من حسابہم من شیء کہ پرہیزگاروں پر یعنی اہل اسلام پر ان کفار کا کچھ حساب دینا نہ ہوگا کیونکہ جو گناہ کرتا ہے وہی اس کا بدلہ پاتا ہے۔ اپنے برے اعمال کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ نہ اہل اسلام ولکن ذکریٰ لعلہم یتقون۔ ہاں جہاں تک ممکن ہو ان کو نصیحت کر دینی چاہیے تاکہ وہ بھی پرہیزگاری اختیار کریں۔ کفر و بت پرستی سے باز آویں۔ نصیحت کے لئے ان کی مجالس میں شریک ہونے کی اجازت ہوئی۔ اس کے بعد ان کفار کے دین کا لغو ہونا اور آخرت میں معذب ہونا ظاہر کرکے ان سے بےاعتنائی اور آنکھوں میں ان کی بےوقری پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بقولہ وذرالذین اتخذو دینھم لعبًا ولہوًا الخ کہ ان لوگوں کو چھوڑ دو یعنی دل میں ان کے تجمل اور ان کے برخلاف ہونے کو کچھ جگہ نہ دو ۔ تھوڑی سی زندگی ہے جس نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اس پر ریجھے ہوئے ہیں۔ پھر تو عالم آخرت میں انسان اپنے کئے سے ماخوذ ہوگا نہ وہاں کوئی خدا سے زبردستی بچا سکے گا۔ لیس لہا من دون اللّٰہ ولی اور نہ کوئی سفارش کرسکے گا ولا شفیع اور جو کچھ تاوان یا بدلہ فدیہ یہ دے کر چھوٹنا چاہے گا جیسا کہ دنیا میں جرمانہ بھگت کر جسمانی سزا سے بچ جاتے ہیں سو یہ بھی قبول نہ ہوگا۔ وان تعدل کل عدل لایؤخذ منہا پھر وہاں ان کے لئے کیا ہے۔ شراب حمیم ‘ جہنم کا گرم کھولتا ہوا پانی پینے کو اور عذاب الیم ‘ سدا جینے کو ہوگا۔ یہاں کی یہ چند روزہ زندگی اور عیش و نشاط وہاں کے عذاب اور رنج و ہمومِ دائمی کے مقابلہ میں عمر قیدی کے لئے رات کا احتلام ہے۔ اس پر یہ غرور یہ غفلت ! کفار کا نام لے کر ترک کرنے کا حکم نہ دیا کیونکہ پھر تو شخص خاص سے بحث ہوجاتی جو الہام اور نبوت کے فیض عام کے منافی ہے بلکہ ان کفار کے دو وصف بدذکر کئے جس سے معلوم ہوا کہ صرف انہیں وصفوں کی وجہ سے ان سے حسد نفرت کا حکم دیا۔ وہ یہ ہیں : (1) اتخذوا دینہم لعبا ولہوا کہ انہوں نے کھیل کود کو اپنا مذہب بنا رکھا ہے حالانکہ مذہب اور دین تو وہ باتیں ہونی چاہییں جو اس کی روح کو منور اور دنیا میں اصلاح کریں اور جب عبادت شہوت پرستی ہوئی تو اس شخص کی زیاں کاری کا کیا ٹھکانا ہے ؟ کس شائستہ طور سے کفار کے مذہب کا بطلان فرمایا۔ اگر آپ غور کرکے دیکھئے گا تو کفار کی ہر عبادت شہوت پرستی ہے۔ ہندوئوں کو دیکھئے بڑے بڑے معابد کے میلے ‘ وہاں گانا اور ناچنا اور عورت مردوں کا بےحیا طور پر ملنا ہے اور کچھ نہیں۔ بخلاف حج کے کہ وہاں بجز خدا کی تسبیح و تقدیس کے اور کچھ نہیں۔ اسی طرح عبادت کیا ہے بھجن ‘ گانا ‘ بجانا ‘ بھنگ پینا۔ اسی طرح عیسائیوں کے مذہب کو خیال کرلیجئے۔ چونکہ یہ مذہب ابتداء سے حقانی تھا۔ اس لئے اس میں کچھ آثار اس کے بھی باقی ہوں تو موجود مذہب کی حقانیت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ (2) غرتہم الحیوۃ الدنیا خدا کی پناہ جب انسان دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہوجاتا ہے تو گویا عالم آخرت سے اس کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہے۔ رات دن ہے کہ دنیا کے حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ خواہ حرام طور سے ہو ٗ خواہ حلال سے اپنے مطلوب و معشوق کے حاصل کرنے میں نہ اس کو ظلم کی پروا ہوتی ہے نہ اس بات کا دھیان آتا ہے کہ آخر تاب کے یہاں ہوں گا اب بڈھا ہو کر پھر کیا جوان ہونا ہے۔ جب دوسرے عالم کا دھیان ہی نہیں تو وہاں کا سامان کیسا ! سو یہ بھی بڑی حرمانِ آخرت کی وجہ ہے۔ ہنود و نصاریٰ کو عموماً دیکھئے کس قدر دنیا پر فریفتہ ہیں اور کس طرح حاصل کرتے ہیں۔ الحمد للہ مسلمانوں میں اب تک عالم آخرت کا دھیان رہتا ہے مگر بعض حمقاء 1 ؎ یعنی نیا چر ترقی مذہب اسلام دنیا کے وافر ہونے کو سمجھتے ہیں۔ خواہ سود کھانے سے ہو۔ کیوں نہ ہو اس عقل کا کیا ٹھکانا ہے ؟ واللہ اعلم
Top