Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 10
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور بیشک مَكَّنّٰكُمْ : ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : زندگی کے سامان قَلِيْلًا : بہت کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور ہم نے تم کو زمین میں بسایا اور ہم نے تمہارے لئے اس میں روزی کے اسباب پیدا کئے۔ تم کمتر شکر کرتے ہو
ترکیب : معایش مفعول جعلنا جمع معیشۃ۔ ان لا لا زائدہ اور من جار حذف یہ مفعول ثانی ہے منع کا یا موضع حال میں اذ ظرف ہے تسجد کا منہا اے من الجنۃ وقیل من السموات فبماب قسم کے لئے ما مصدریہ لا قعدن جواب قسم۔ تفسیر : پہلے اس سے لوگوں کو انبیاء کی فرمانبرداری کا حکم دیا تھا اور مخالفت میں عذاب دنیوی سے بقولہ وکم قریۃ اھلکناھا اور آخرت کے عذاب سے سوال و وزن کرنے سے ڈرایا تھا۔ انسان کی جبلی عادت ہے کہ وہ خوف اور نعماء و احسانات سے مسخر و مطیع ہوتا ہے۔ اس لئے خوف مضرت دارین کے بعد بنی آدم پر ان کے بزرگ و جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) پر جو کچھ انعام و احسان کئے ہیں ان کو یاد دلاتا ہے اور لطف یہ ہے کہ تخویف میں عالم آخرت کا اور احسان یاد دلانے میں اس کی ابتداء کا بھی بیان کردیا جو آسمانی کتاب کا ایک ضروری کام ہے اور اس کو علم مبتدء و معاد کہتے ہیں۔ ولقد مکنکم الخ زمین پر بنی آدم کا بسانا اور سب چیزوں پر مسلط کرنا اور پھر قدرتی چیزیں جیسا کہ پھل ‘ ترکاری ‘ غلہ وغیرہ اور صنعت کے متعلق گھی شکر کپڑا وغیرہ ان کے لئے مہیا کردینا ایک ایسا احسان ہے کہ جس سے گردن اٹھ ہی نہیں سکتی مگر انسان بہت کم شکر کرتا ہے۔ نعمت میں مست ہو کر شہوات میں مصروف ہوتا ہے۔ تکلیف میں گلہ شکوہ کرنے لگتا ہے۔ ولقد خلقنکم ثم صورنکم ثم قلنا للملائکۃ اسجدوا یہاں سے ان کے بزرگ اور جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) پر جو احسان و احترام کیا تھا اس کو یاد دلاتا ہے کہ ان کو عمدہ شکل پر پیدا کرکے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سب نے سجدہ کیا مگر شیطان نے نافرمانی اور تکبر کیا تو اس کو ملعون کردیا۔
Top