Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 117
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ۚ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ : کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَاِذَا : تو ناگاہ هِىَ : وہ تَلْقَفُ : نگلنے لگا مَا : جو يَاْفِكُوْنَ : انہوں نے ڈھکوسلا بنایا تھا
اور ہم نے (اس وقت) موسیٰ کو وحی کی کہ تم بھی اپنا عصا ڈال دو ۔ پھر تو جو کچھ وہ (سانگ) بنا رہے تھے سب کو یکایک نگلنے لگا۔
ترکیب : ان الق مفعول اوحینا فاذا مفاجات کے لئے ہے مبتدا تلقف خبر۔ صاغرین حال ہے انقلبوا سے قبل متعلق ہے آمنتم سے الی ربنا متعلق۔ تفسیر : اول فراعنہ کا کہ جن کی سلطنت ایک ہزار چھ سو بائیس (1622) برس تک رہی۔ ان میں اخیر بادشاہ سمنی توس تھا جس کو کمبیس شاہ ایران نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پانچ سو بیس (520) برس پیشتر قتل کرکے ان کے خاندان کو تمام کردیا اور ایرانیوں کی سلطنت قائم ہوئی۔ دوسرا دور سکندر اعظم تک ایک سو چورانوے (194) برس تک ان کی سلطنت رہی۔ پھر تیسرا دور بطلیمیوسیون کا ہے جن کی سلطنت سکندر سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تیس برس پیشتر تک رہی۔ چوتھا دور رومیوں کا ہے جو مسیح (علیہ السلام) کے تیس برس قبل ولادت سے لے کر چھ سو انتالیس (639) عیسوی تک رہی۔ اس کے بعد سے یعنی اٹھارہویں سال ہجری سے لے کر آج تک اہل اسلام کے قبضہ میں ہے ( خدا ہمیشہ رکھے) حال کا بادشاہ توفیق بن اسماعیل ہے۔ یہ پانچواں دور ہے پھر اس میں بھی مسلمانوں کے متعدد خاندان حکمراں رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں خاندان فراعنہ سے امنو 3 ؎ افیس دوم بادشاہ تھا جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے چودہ سو بانوے (1492) برس پیشتر بحر احمر یعنی قلزم میں مع اپنی فوج کے غرق ہوا۔ اس کے بعد مصر میں خاندان فراعنہ سے دوسرا بادشاہ قائم ہوا۔ بعض جو کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) پھر مصر میں لے گئے اور ان کی سلطنت قائم ہوئی۔ غلط بات ہے۔ ہرگز قرآن و احادیث سے یہ نہیں سمجھا جاتا۔
Top