Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے فرعونیوں کو برسوں کی قحط سالی اور میووں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
ترکیب : آل فرعون مفعول اخذنا بالسنین الاصل فی سنۃ سنہ لامہاہا۔ وقیل لامہاوالقولھم سنوات و اکثر العرب یجعلھا کزیدون والعبض یجعل النون حرف الاعراب وکسرت العین اعلامابانھا جمعت علی غیر القیاس یہ اخذنا سے متعلق الطوفان (قیل مصدر وقیل جمع طوفانۃ وھو الماء الکثیر المغرق۔ ) والجراد جمع جرادۃ والقمل والضفادع والدم مفعول ارسلنا آیات موصوف بینات صفت مجموعہ حال ہے ہر واحد سے اور ثنا فعل بافاعل القوم مفعول اول مشارق الخ مفعول ثانی ماکان یصنع ما بمعنی الذی اسم کان ضمیر جو راجع ہے ما کی طرف یصنع فعل فرعون فاعل جملہ خبر کان۔ تفسیر : (3) فرعون کا شہر مصریہ نہیں کہ جس کو آج کل قاہرہ مصر کہتے ہیں بلکہ دریائے نیل کے پورب اور پچھم میں بسا تھا جو ہامون نو یا نوامون اپنے ایک دیوتا کے نام سے آباد کیا تھا جس کے سو پھاٹک اور دو ہزار مستحکم قلعے تھے جن میں بیٹھ کر دشمن سے بخوبی لڑ سکتے تھے۔ اس کے غربی حصے میں برج اور بادشاہی محلوں کے نشان اور بڑے بڑے پتھر کے لمبے ستون جن کا طول 20 گز قطر 3 گز ہے اور ایک صحن میں بادشاہ کی ایک سنگ مر مر کی تصویر جس کی بلندی 22 گز اور وزن چوبیس ہزار آٹھ سو انتالیس من ہے ٹوٹے پھوٹے پڑے نظر آتے ہیں۔ ستائیس میل کے دور میں اس کے خرابات مسافروں کو دکھائی دیتے ہیں۔ اس شہر کا مشرقی حصہ بھی بہت بڑا ہے جس میں سینکڑوں بت خانے دکھائی دیتے ہیں۔ فرعون کے محل کے نشان اور ٹوٹے پھوٹے برج اب تک موجود ہیں۔ اسی کے ایک حصہ کا نام عمسیس تھا جہاں سے بنی اسرائیل نے کوچ کیا تھا اور ممفیس بھی اسی کو یا اس کے کسی حصہ کو کہتے تھے جس کو اہل اسلام منف کہتے ہیں۔ یہ شہر بخت اور کمیس شاہ ایران کے ہاتھوں سے اجاڑ ہوا اور پھر جب عمرو بن العاص ؓ نے اس کو ہجرت سے اٹھارہویں سال حضرت عمر ؓ کی خلافت میں فتح کیا اور ہر کلیوس (ہرقل) شاہ روم کے ہاتھ سے لیا تو یہ اور بھی برباد ہوگیا۔ حضرت عمر ؓ کی اجازت سے عمرو بن العاص ؓ نے نیل کی شرقی سمت میں فسطاط کی بنیاد ڈالی اور ایک مسجد بھی بنائی جس کا طول پچاس گز اور عرض تین گز تھا۔ یہ شہر جدید خلفائِ بنی العباس کے عہد میں مصر کا پائے تخت رہا۔ چنانچہ اور اس کی قوم کچھ اپنی حفاظت اور بنی اسرائیل کی محکومی کی بابت منصوبے باندھتے اور اس کے محل چنتے تھے سب گر گئے۔ ان کی کچھ تدبیر نہ چلی۔ خدا کا چاہا ہو کر رہا۔ پر رہا۔ 12 منہ جب کافور 3 ؎ جو ان کی طرف سے یہاں کا حاکم تھا مرگیا تو قیروان سے ابو تمیم معز باللہ اسماعیلیوں کے چوتھے خلیفہ نے اپنے غلام اور سپہ سالار قائد جو ہر کو مصر پر روانہ کیا۔ اس نے آکر جو بڑے لشکر جرار کے ساتھ آیا تھا یہ ملک خلفاء عباسیہ کے قبضہ سے نکال لیا اور اپنے شیعہ مذہب کے موافق خطبہ پڑھوا دیا اور فسطاط کو غارت کردیا۔ پھر چند روز کے بعد معز باللہ بڑے فوج کے ساتھ آیا اور سکندریہ پر قبضہ کرتا ہوا رمضان المبارک 362 ء میں داخل ہوا اور فسطاط کے پاس اور شہر قاہرہ 4 ؎ کی بنیاد ڈالی۔ پھر یوما فیوماً قاہرہ کی رونق اور آبادی بڑھتی گئی۔ آخر جب سلاطین اسماعیلیہ کی سلطنت مصر سلطان صلاح الدین یوسف کے ہاتھ آئی تو اس نے فسطاط اور قاہرہ اور قلعہ کے ارد گرد آٹھ میل کے دور میں پختہ شہر پناہ بنوا دی تھی۔ اس قاہرہ کو فرعون کا شہر کہنا بڑی غلطی ہے۔ چونکہ مصر فرعون کا شہر ہے اس لئے اس کے تاریخی واقعات بیان کرنا مناسب مقام ہوا۔ (4) الغرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی حمایت میں سرگرم رہنے لگے اور جب سے کہ آپ ایک بار منف میں گئے اور وہاں ایک قبطی کو اسرائیلی سے لڑتے دیکھا اور اس کے ایک مکا مارا اور وہ مرگیا تو فرعون کے لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اسرائیلی اور وہی شخص ہے جو ہماری سلطنت کی تخریب کا باعث ہوگا۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) یہاں سے جان بچا کر مدین گئے اور وہاں سے لوٹتے وقت کوہ طور کے حوالی میں ان کو مصر جانے اور فرعون کو سمجھانے کا حکم ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت مشکل سے فرعون تک رسائی ہوئی۔ وہاں جا کر کہا ٗ میں خدا کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ جھوٹ بولنا میرا شیوہ نہیں ٗ میں معجزات لے کر تیرے پاس آیا ہوں تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو ان کے وطن شام میں جانے دے۔ فرعون نے کہا اچھا اگر تیرے پاس کوئی معجزہ ہے تو دکھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ کا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ سانپ بن کر لہرانے لگا جس سے فرعون اور اس کا دربار ڈر کر بھاگ نکلا پھر اس کو ہاتھ میں لیا تو ویسی ہی لاٹھی ہوگئی۔ اس کے بعد دوسرا معجزہ یہ دکھایا کہ ہاتھ اپنی بغل میں دے کر جو باہر نکالا تو آفتاب کی طرح چمکنے لگا۔ یہ دو معجزے موسیٰ (علیہ السلام) کو وادی مقدس میں ملے تھے۔ فرعونیوں نے ان کو جادو سمجھ کر ان کے مقابلہ کے واسطے اپنے تمام جادوگروں کو جمع کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرایا۔ جادوگروں نے نظربندی کرکے اپنی رسیوں اور لکڑیوں کے اسی طرح سے سانپ بنا دیے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ اژدہا بن کر سب کو نگل گیا جس سے لاکھوں آدمی جو اس میدان مقابلہ میں تھے ڈر گئے اور جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ اس پر فرعون سخت ناراض ہوا اور جادوگروں کو کہا کہ تم موسیٰ (علیہ السلام) سے ملے ہوئے تھے۔ تم نے باہم مشورت کرلی ہے تاکہ تم اس شہر سے بنی اسرائیل کو نکال کرلے جائو۔ اچھا ابھی معلوم ہوئے جاتا ہے۔ حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پائوں کو کاٹ کر درختوں پر لٹکا کر سولی دے دو ۔ جادوگروں نے کہا کچھ پروا نہیں ٗ کچھ پروا نہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں سو وہ ہم کو صبر عنایت کرے گا۔ اس کے بعد فرعونیوں نے صلاح دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالئے تاکہ زمین میں فتنہ برپا نہ کرے اور تیری اور تیرے معبود کی پرستش نہ چھوڑا دے۔ فرعون نے اور بھی بنی اسرائیل کو تکالیف دینی شروع کیں جس سے وہ چیخ اٹھے۔ موسیٰ نے کہا 1 ؎ غالباً یہ کیخسرو ہے جس نے بخت نصر کے بعد بابل کو غارت کیا اور مصر پر بھی حملہ آور ہوا تھا۔ 12 منہ 2 ؎ ہرقل شاہ روم کا ماتحت بادشاہ مقوقس ان دنوں مصر کا حاکم تھا یا اس کا بیٹا۔ 12 منہ 4 ؎ یہ کافور آخشیدی وہ شخص ہے کہ جس کی دیوان متنبی میں یہ شاعر مدح لکھتا ہے یہ بنی العباس کا ایک آزادہ کردہ تھا۔ 4 ؎ یہ وہی قاہرہ ہے کہ جو آج کل شاہ مصر توفیق پاشا ٗ تابع سلطان عبدالحمید خان خلدا للہ ملک کا پایہ تخت ہے۔ مصر میں چند سال ہوئے اعرابی بادشاہ سپہ سالارلشکر مصر نے بغاوت اختیار کی تھی۔ نہر سویز کی حفاظت کی وجہ سے (جو انگریزوں اور فرانس کے لئے ہندوستان کا رستہ ہے) انگریزوں نے شاہ مصر کی اعانت کی اور اپنی فوج مصر میں بھیج دی جس سے محمد احمدسوزانی نے جو عہدی کہلاتا ہے مقابلہ کیا اور انگریزوں اور مصریوں کو متواتر شکستیں دے کر افریقہ کا ایک بڑا حصہ لے لیا اور آیندہ مصر پر قبضہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں ٗ دیکھئے کیا ہوتا ہے 12 منہ صبر کرو۔ انجام کار نیک بختوں کو فلاح ہوتی ہے۔ خدا کا ملک ہے جسے چاہے دے وہ تمہارے دشمن کو عنقریب ہلاک کرکے زمین پر تمہیں حکومت دیا چاہتا ہے۔ پھر دیکھئے تم کیا کرتے ہو ؟ اس کے بعد کئی برس تک موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں فرعونیوں کو معجزات دکھلاتے رہے۔ کبھی اولے برسے کبھی تمام پانی خون ہوگیا مینڈکیاں در و دیوار پر چڑھ گئیں۔ چچڑیوں نے ستایا لیکن یہ زیادہ تنگ ہوتے تھے تو فرعونی فرعون سے کہتے وہ موسیٰ کو بلا کر وعدہ کر تاکہ اگر یہ بلا تو نے اپنے خدا سے کچھ کہہ کے دور کرا دی تو ہم ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دیں گے مگر جب وہ بلا دور ہوتی تھی پھر ویسے کے ویسے منکر ہوجاتے تھے اخیر ایک بار مصر میں غریب سے امیر تک سب کا پہلوٹھا بیٹا مرگیا جس سے تمام مصر میں کہرام مچ گیا۔ لوگوں نے فرعون سے کہا شہر غارت ہوگیا ہے۔ انہیں جہاں کہیں اپنی قربانی کرنے جاتے ہیں ٗ جانے دیجئے بنی اسرائیل عمسیس سے مرد و زن مال و اسباب لے کر قربانی کے بہانے سے نکلے جب کئی منزل مشرقی جانب طے کی تو بحر قلزم پر آگئے۔ خدا نے ان کو یہاں سے پار کردیا ٗ اس جگہ غرق نہ کیا۔
Top