Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 153
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا١٘ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے عَمِلُوا : عمل کیے السَّيِّاٰتِ : برے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : توبہ کی مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد وَاٰمَنُوْٓا : اور ایمان لائے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جنہوں نے برے کام کئے پھر اس کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو بیشک آپ کا رب توبہ کے بعد معاف کرنے والارحم کرنے والا بھی ہے۔
ترکیب : الذین مع صلہ اسم ان سینا لہم الخ جملہ خبر والذین عملوا السئیات مبتدا ان ربک جملہ خبروالتقدیر غفور لھم ورحیم بھم لما سکت شرط اخذ الالواح جواب ھدی معطوف علیہ ورحمۃ معطوف لربہم یرھبون سے متعلق للذین رحمۃ سے متعلق جملہ مبتداء موخر فی نسختہا ثابت کے متعلق ہو کر خبر ضمیر مونث الواح کی طرف راجع ہے۔ یہ تمام جملہ حال ہوگا الواح سے۔ تفسیر : کہ میں نے منع کیا مگر نہ مانا میرے قتل کے درپے ہوگئے اور نصِّ قرآن سے بھی یہی ثابت۔ پس وہ جو آج کل توریت میں ہے کہ ہارون (علیہ السلام) نے یہ کام کیا اگر تاویل پذیر نہیں تو محض غلط اور الحاق یہود ہے۔ ہارون خدا کے برگزیدہ سے یہ بت پرستی بعید از قیاس ہے اور جو کوئی مسلمان کھل کر یہ بات کہے وہ کافر منکر نصِّ قرآن ہے۔ (2) بچھڑا جو سونے کا سامری نے بنایا اس میں علمائِ اسلام کے دو قول ہیں، بعض کہتے ہیں کہ کسی صنعت سے اس کو مجوف ڈھالا تھا کہ ہوا کے سامنے رکھنے سے اس سے گائے کے بچھڑے کی سی آواز نکلتی تھی جس سے ان احمقوں نے نہ صرف اپنا خدا بلکہ موسیٰ کا بھی خدا اس سامری جاہل کے کہنے سے تسلیم کرلیا اور اس کے ارد گرد ناچنے گانے ‘ قربانی چڑھانے ‘ سجدہ کرنے لگے۔ بعض کہتے ہیں کہ سامری نے اس میں جبرئیل کے گھوڑے کے پائوں کی مٹی ڈال دی تھی جو اس نے اس وقت اٹھائی تھی جبکہ جبرئیل عبور قلزم کے وقت نمودار ہوئے تھے یا جب کوہ طور پر آئے تھے جس سے وہ حیوان ہو کر بولنے لگا جیسا کہ قرآن میں اس کی تصریح ہے۔ فریق اول کہتا ہے کہ قرآن میں صرف سامری کا عذر نقل کیا ہے کہ میں نے ایسا کیا۔ اب یہ کیا ضرور ہے کہ جس کسی کے قول کو قرآن حکایت کرے وہ قول فی نفسہٖ صحیح بھی ہو۔ بت پرستوں اور جہلاء کے بہت قول نقل ہیں۔ وما یہلکنا الا الدھر وغیرہ تو پھر کیا ان کا یہ کہنا سچ ہے ؟ قرین قیاس ہے کہ سامری نے بنی اسرائیل سے فریب کیا ہو کہ اس کو بنایا تو مجوَّف ہو جس میں ہوا کے ذریعے سے آواز پیدا ہوتی تھی اور کہہ دیا کہ یہ میں نے رسول کے پائوں کی مٹی ڈال دی ہے اور وہ وہی بوقت ملامت موسیٰ سے کہہ دیا اور قرآن میں یہ نہیں کہ اس مٹی کے ڈالنے سے وہ بولتا تھا یاسچ مچ کا بچھڑا بن گیا تھا۔ اگر قدم رسول 1 ؎ کا ایسا اثر ہوا تو کیا تعجب ہے رسول سے مردہ روحیں زندہ ہوتی ہیں۔ ان کی خاک پا سے اگر جماد حیوان ہوجائے تو کیا بعید ہے۔ (3) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جنہوں نے بچھڑا بنایا ان پر خدا کا غضب اور ذلت پڑے گی۔ چناچہ ان کی توبہ یہ قرار پائی کہ قتل کئے جاویں اور پھر وبا بھی آئی اور نیز چالیس برس بیابان میں حیران پھرے ولما سکت توریت موجودہ میں جو لوحوں کا ٹوٹ جانا اور باردیگر کندہ کرا کے لانا لکھا ہے الحاق ہے کیونکہ ایسی کیا وہ کچی مٹی کی تھیں جو گرتے ہی چکنا چور ہوگئیں۔ پڑھنے اور دوسرے پتھر پر نقل کرنے کے قابل نہ رہی تھیں۔ پس قرین قیاس وہی ہے جو قرآن سے سمجھا جاتا ہے کہ غصہ میں ڈال دی تھیں۔ غصہ دور ہوا تو اٹھا لیں۔ لوحیں اس لئے دی گئی ہوں گی کہ اس عہد میں خصوصاً جنگل میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس کاغذ نہ ہوگا اور حفظ کا قرآن کی طرح رواج نہ تھا ورنہ پتھر کی سلیں ساتھ ساتھ لئے پھرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔
Top