Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جبکہ ان کو (بنی اسرائیل) کو حکم ہوا کہ اس گائوں میں چل رہو اور وہاں (جا کر) جہاں سے چاہو کھائو (پیو) اور معافی مانگنا اور اس کے دروازہ میں سے سجدہ کرتے ہوئے جانا تو ہم تمہارے سب گناہ معاف کردیں گے (اور) نیکوں کو عنقریب ہم زیادہ انعام دیں گے۔
ترکیب : قیل سے لھم متعلق ہے اسکنوا الخ جملہ مفعول مالم یسم فاعلہ ھذہ القریۃ صفت و موصوف مفعول فیہ حطۃ خبر ہے مبتداء محذوف کی ای امرنا حطۃ سجدا حال ہے ادخلوا کے فاعل سے نغفر مجذوم ہے جواب امر کی وجہ سے قولا بدل کا مفعول موصوف غیر الذی صفت یا حال قیل کا مفعول مالم یسم فاعلہ ضمیر ہے جو الذی کی طرف راجع ہے۔ تفسیر : یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کا قصہ ہے ان کے خلیفہ یوشع بن نون کا جبکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ملک شام میں پہنچے اور یرون ندی کو عبور کیا۔ اس قریہ سے مراد شہر بریکو ہے جس کو اریحا بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر یروشلم سے بیس میل اور دریائے یرون سے 9 یا 7 میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ اب اس جگہ یا اس کے متصل ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے جس میں اعراب یعنی بدوی لوگ اکثر رہتے ہیں۔ اس شہر پر بنی اسرائیل سے اور کنعانیوں سے بڑی لڑائی ہوئی اور آخر بنی اسرائیل نے فتح پائی اور شہر کو غارت کردیا۔ اسی شہر کے اس واقعہ کا خدا تعالیٰ یہاں ذکر فرماتا ہے کہ ان سے یعنی بنی اسرائیل سے کہا گیا (غالباً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وصیت کی ہوگی کہ جب تم اس شہر میں گھسو تو اس کے پھاٹکوں میں سے سجدہ یعنی سرنگوئی اور فروتنی کرتے اور خدا سے اپنے جرموں کی جو تم نے میرے روبرو کئے ہیں معافی مانگتے گھسنا تاکہ ملک شام میں ہمیشہ تم پر خدا کی نظر عنایت رہے اور تمہارے دشمن مغلوب رہیں یا خاص اسی وقت یوشع نے حکم دیا ہوگا) مگر یہ جو وہاں پہنچے تو بجائے عاجزی اور فروتنی کے اترانے لگے اور وہاں کی لوٹ چھپانے لگے جس کا چھپانا ان پر سخت جرم تھا اصلی حکم کو بدل دیا اس لئے ان پر آسمانی بلا نازل ہوئی یعنی عی کے لوگوں نے بنی اسرائیل کو شکست دے کر ان کے لوگوں کو قتل کیا۔ یہ واقعہ کتاب یوشع کے 77 باب میں کسی قدر مذکور ہے۔ تب یوشع اور سارے اسرائیلی بزرگوں نے کپڑے پھاڑے اور خداوند کے عہد کے صندوق کے آگے شام تک پڑے رہے اور اپنے سروں پر خاک دھری اور یوشع بولا ٗہائے اے خداوند مالک ! تو اس قوم کو کس لئے یرون پار لایا الخ تب خداوند نے فرمایا ٗ اٹھ کھڑا ہو۔ کس لئے یوں اوندھا پڑا ہے ؟ بنی اسرائیل نے گناہ کیا اور انہوں نے اس عہد سے جس کی بابت میں نے ان کو حکم دیا عدول کیا کیونکہ انہوں نے حرام چیزوں میں سے بھی کچھ لیا اور چوری بھی کی اور ریاکاری بھی کی اور اپنے اسباب میں ملا بھی لیا اس لئے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں ٹھہر نہ سکے ٗ لعنتی ہوئے۔
Top