Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 92
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا١ۛۚ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَاَنْ : گویا لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا : نہ بستے تھے اس میں وہاں اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا شُعَيْبًا : شعیب كَانُوْا : وہ ہوئے هُمُ : وہی الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا گویا کہ وہ کبھی وہاں بسے بھی نہ تھے جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہی خراب ہوئے
ترکیب : الذین الخ مبتداء کان لم الخ خبر یا کان لم حال ہے ضمیر کذبوا سے اور دوسرا الذین کذبوا بدل ہے فاعل یغنوا سے کانوا الخ خبر کانوا کا اسم ضمیر متصل ھم الخاسرین خبر۔ الاساء شدۃ الحزن اسے علی ذلک فھو آس۔ تفسیر : ہاں اگر تقدیر میں یونہی لکھا ہو اور اللہ ہی چاہے تو اس کا کچھ کہنا ہی نہیں ( کیونکہ دل جو انسان کے تمام افعال کا محرک ہے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے چاہے اس کو ہدایت کی طرف پھیر دے خواہ بدی کا داعیہ اس میں ڈال دے خوف کا مقام ہے) ۔ مگر وہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔ ہمارا اسی پر بھروسہ ہے۔ اس کے بعد شعیب (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ کر دے۔ یہ بھی عذاب کے خواستگار ہیں۔ آخر اس قوم کا بھی وقت قریب آگیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ان پر ایک دھواں سا اٹھایا جس کی گرمی دلوں کو کباب کرتی تھی (فاخذھم عذاب یوم الظلہ انہ کان عذاب یوم عظیم) یہ دھواں جس کو ظلہ سے تعبیر کیا ہے وہاں کی زمین اور پہاڑوں کے اوخنہ ناریہ تھے جو بوقت زلزلہ پیدا ہوئے تھے اور ادھر خدا نے زلزلہ بھیجا فاخذتہم الرجفۃ کہ جس نے تھوڑی سی دیر میں ہلاک کردیا۔ پھر تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے تھے۔ ایسی آسمانی مصیبت کے وقت مہیب آواز بھی پیدا ہوتی ہے۔ سو اوپر سے دھوئیں کا ابر آتشیں اور نیچے سے زلزلہ عظیم ‘ اس پر ہیبت ناک آواز بری موت کا سامان ہے کہ جس کے تصور سے دل لرزتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی عادت ہے کہ وہ اپنا منہ چھپاتا پھرا کرتا ہے اور زمین کو پکڑتا ہے سو اس قوم نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا جو اوندھے کے اوندھے پڑے ہوئے جان نکل گئی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے متبعین اس بلا سے محفوظ رہے۔ پھر شعیب (علیہ السلام) نے اس قوم کو اوندھا پڑا اور ان کے گھروں کو اجاڑ اور بےوارث دیکھا کہ گویا کبھی ان کے گھروں میں کوئی بسا ہی نہ تھا۔ بڑی حسرت کے ساتھ تاسف اور رنج کرکے یہ خطاب ان مردوں سے کیا اور کہا کہ اے قوم ! میں تو تمہیں اللہ کے احکام پہنچا چکا تھا اور تمہاری پوری خیرخواہی کی تھی مگر تم نے نہ مانا پھر اب تم پر کیا رنج کیا جائے۔ مروی ہے کہ جب اس آتشیں بلا کو ایک شخص عمرو بن جلہم نے دیکھا تو یہ اشعار کہے ع یا قوم ان شعیبا مرسل فذروا عنکم شمیرا و عمران بن شداد انی اری غیمۃ یا قوم قد طلعت تدعوا بصوب علی حناتہ الوادی فانہ لن یری فیہا ضحاء غدا الا الرقیم یمشی بین انجادی شمیر اور عمران ان کے پجاری تھے اور رقیم کتے کا نام تھا۔ ابجد اور ہوز اور حطی اور کلمن اور سعفص اور قرشت ان کے بادشاہوں کے نام ہیں اور اس عہد میں ان کا بادشاہ کلمن تھا۔ یہ قصہ اس سورة ہود و شعراء میں بیان ہوا ہے۔
Top