Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ ہوتا کہ اَهْلَ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَفَتَحْنَا : تو البتہ ہم کھول دیتے عَلَيْهِمْ : ان پر بَرَكٰتٍ : برکتیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلٰكِنْ : اور لیکن كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا فَاَخَذْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں پکڑا بِمَا : اس کے نتیجہ میں كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے
اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تو جھٹلایا پھر تو ہم نے ان کو ان باتوں پر جو وہ کرتے تھے پکڑ لیا۔
ولو ان اھل القریٰ امنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکات من السماء والارض۔ یہاں یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ وہ لوگ کہ جن پر ان کے گناہوں کی نحوست نازل ہوئی۔ اگر ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ آسمان کی برکتیں وقت پر پانی برسنا اور زمین کی برکات اچھی طرح نباتات کا اگانا کھیتی اور درختوں میں عمدہ پھول اور پھل آنا۔ اس عالم میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے دو سبب ہیں۔ ایک فاعلی جو سماوات ہیں۔ ان کی تاثیریں زمین پر پہنچتی ہیں۔ آفتاب کی گرمی اور ماہتاب کی رطوبت و برودت علی ہذا القیاس ہر ستارے اور ہر گردش فلک کی ایک تاثیر خاص اس فاعل حقیقی نے رکھی ہے۔ دوسرا سبب مادی زمین اور عناصر ہیں۔ جب ان کی تاثیریں ان پر پڑتی ہیں اور یہ حسب مادہ و استعداد ان کو قبول کرتے ہیں تو عناصر کی ترکیب سے نباتات و جمادات حیوانات سب چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ اب برکت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان اسباب کو بندوں کو فوائد کے موافق کر دے اور بےبرکتی اس کا برعکس اور یہ بات تو خاص اس نے اپنے ہی دست قدرت میں رکھی ہے۔ یہ چیزیں پتلوں کی طرح سے اس کے ہاتھ سے ہلتی ہیں۔ اب فرماتا ہے کہ جس طرح ہم مطیع کے لئے منعم ہیں۔ برکات السموات والارض اس کو نصیب کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم عاصی و ناشکری کے لئے منتقم بھی ہیں۔ ہمارے عذاب دنیا و آخرت سے کسی کو نڈر اور بےخوف و خطر نہ ہونا چاہیے۔ افامن اہل القریٰ الخ کیونکہ ہمارا عذاب انسان کو یکایک آلیتا ہے اور ہمارے مکر یعنی تدابیر ناموافق عباد سے بھی نڈر نہ ہونا چاہیے۔ ہم جب چاہتے ہیں سب ظاہری اسباب و سامان کو منقلب کردیتے ہیں اسی کی تلوار اسی کو کاٹنے لگتی ہے۔
Top