Tafseer-e-Haqqani - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
اپنے بعض گناہوں کے سبب غرق کردیے گئے پھر جہنم میں داخل کئے گئے پھر انہوں نے اللہ کے سوا کوئی بھی مددگار نہ پایا
ترکیب : مما ما مزیدۃ لتاکیدوا لمعنی من۔ خطیئتھم قرء الجمہور علی جمع السلام ۃ وقری خطایاھم علی جمع التکسیر ‘ دیارا من یسکن الدیار ویدورفی الارض ولاتستعمل الافی النفی العام اصلہ دیوار علی وزن فیعال من الدارا والدورفقلبت الواویا ئً وادغمت احدھمافی الاخری قالہ الزجاج والفراء قال ابن قتیبہ مابھاد یارا ای نازل دارلافعال والا لکان دوارا۔ البیضاوی۔ مؤمنا حال لمن دخل۔ تبارا۔ ہلاکا۔ تفسیر : اس کشمکش میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو سینکڑوں برس گزر گئے اور سوائے چند شخصوں کے کوئی بھی ہدایت پر نہ آیا تب ان حضرت کی بددعا کے سبب عذاب آیا کہ آسمان سے بےانتہا پانی برسا اور زمین نے بھی اپنی سوتیں کھول دیں، تمام قوم غرق ہوئی مگر مما خطیئتھم ان کے گناہوں کے سبب۔ اور غرق ہو کر بھی چھٹکارا نہ ہوا بلکہ ادخلوا نارا مرنے کے بعد آگ یعنی جہنم میں داخل کئے گئے۔ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلائے عذاب ہوئے۔ فلم یجدوا لھم من دون اللہ انصارا اور ان کے ان معبودوں میں سے ان کے کوئی بھی کام نہ آیا، کسی نے مدد نہ کی کوئی بچا نہ سکا۔ یہ برہان قاطع مذہب صابیہ اور بت پرستی کے ابطال کے لیے ہے اور طلسم و نجوم فال گنڈے بھی اس سے باطل ٹھہرتے ہیں۔ کس لیے کہ اس وقت کچھ بھی کوئی ٹوٹکا شعبدہ و ستارہ دیوتا کام نہ آیا اور نہ آسکتا تھا۔ معلوم ہوا کہ معبودِ حق وہی ایک ہے اسی کی عبادت اسی کی اطاعت فرض ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ حضرات انبیاء محض اس رستہ کے رہنما ہیں۔ تبوت عذاب قبر : فادخلوا کی فایٔ اور صیغہ ماضی سے اہل سنت والجماعت نے ثابت کیا ہے کہ حشر سے پہلے بھی مومن و کافر کو ثواب و عذاب اس کے اعمال و ایمان سے ملتا ہے اور عالم قبر اور عالم برزخ اسی کو کہتے ہیں۔ کس لیے کہ مرنے سے روح نہیں مرجاتی وہ ایک دوسرے عالم میں چلی جاتی ہے اور وہاں اس کو نیک و بد بدلہ ملتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ڈبوئے گئے اور فوراً آگ میں داخل کئے گئے۔ معلوم ہوا کہ حشر سے پہلے بھی آگ میں داخل ہوتے ہیں اور قرآن مجید میں اور جگہ بھی اس کا ذکر ہے۔ النار یعرضون علیہا غدوا وعشیا ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشدا العذاب کہ فرعونی صبح و شام آتش جہنم کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کو سخت عذاب میں داخل کرنے کا حکم ہوگا اور احادیث صحیحہ صریحہ میں بھی اس کا ثبوت بہت کچھ ہے۔ مگر معتزلہ اور شیعہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد حشر سے پہلے عذاب وثواب کا کچھ ثبوت نہیں۔ وقال نوح اور جب قوم غرق ہونے لگی تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس پرخار کھیتی کو کٹتے ہوئے دیکھ کر اسی قہرالٰہی کی تجلی میں حق سبحانہ ٗ سے یہ عرض کیا۔ رب لاتذرعلی الارض من الکافرین دیارا کہ اے رب زمین پر کسی کافر کو بسنے کے لیے نہ چھوڑ۔ انک ان تذرھم یضلوا عبادک ولایلدوا الافاجرا کفارا کس لیے کہ اگر آپ نے کسی کو چھوڑا تو یہ جبلی گمراہ تیرے اور بندوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ان کا خبیث مرض اوروں تک نہ پہنچ جائے، ان سے دنیا کو پاک ہی کرنا چاہیے اور ان کی گمراہی اور کجی جس کا میں نے سینکڑوں برس تجربہ کیا ہے ان کے خمیر میں داخل ہوگئی۔ اصلی فطرت کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا اس لیے اگر ان کی نسل سے اولاد بھی ہوگئی تو گندی بوٹی کا گندہ شوربا بدکار اور کافر ہی پیدا ہوں گے نہ ان میں ہدایت پانے کا مادہ باقی رہا نہ ان کی نسلوں میں پھر جب یہ دونوں باتیں نہیں تو ایسے خاردار ناپاک پیڑ سے باغ دنیا کو پاک ہی کرنا چاہیے۔ سوال :۔ کبھی کافروں بدوں کے گھر نیک اور نیکوں کے گھر شیطان بھی پیدا ہوجایا کرتے ہیں وہاں نطفہ کا اثر کیوں بدل جایا کرتا ہے۔ جواب :۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض کافر و فاجر ایسے ہوتے ہیں کہ ہنوز ان کی اصلی فطرت سالم ہوتی ہے اس لیے کبھی وہ خود بھی ہدایت پا جاتے ہیں اور بوقت مقاربت کبھی فطرت کا نور ان پر غالب ہوجاتا ہے۔ حالت کفر و فجور کی ظلمت کم ہوجاتی ہے اس لیے اس نطفہ سے نیک اور باخدا لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ابھی ان کے تخم میں وہ زہر اثر نہیں کر گیا ہے۔ برعکس اس کے کبھی نیک اور باخدا لوگوں پر بعض گناہوں یا ترک اولیٰ وغیرہ امور یا حالت قبض سے ایک ظلمت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ فضلات کے ذریعہ سے جسم میں سے جلد خروج کرنا چاہتی ہے اس وقت کے نطفے سے بدکردار ‘ ناہنجار پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے ورنہ وہ فاعل حقیقی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ رات میں سے دن اور دن میں سے رات ‘ نور میں سے ظلمت اور ظلمت میں سے نور ‘ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا ہے۔ وہ اسباب کی رسیوں میں جکڑا ہوا نہیں فافھم فانہ من سوانح الوقت العزیز۔ اس کے ساتھ ہی حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب قہرالٰہی کے شعلے بلند ہوتے دیکھے تو اس کی شان کبریائی اور بےپروائی سے ڈرے اور ڈرنا چاہیے بھی اور یہی کمال ایمان بھی ہے تو اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے یہ دعا کرنے لگے۔ رب اغفرلی کہ الٰہی مجھے بخش دے جو کوئی بشریت سے چوک ہوگئی ہے اس کا انتقام نہ لے، ولوالدی اور میرے ماں باپ کو بھی، اولاد پر حق ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے خیر کرے۔ پہلے آپ مغفور ہو لے کہ دعا مستجاب ہو اور آپ کے والدین مواحد اور باخدا تھے۔ ولمن دخل بیتی مومنا اور جو کوئی ایمان لا کر میرے گھر میں آجائے یعنی کشتی میں۔ کس لیے کہ یہ تیری پناہ کی جگہ ہے اور ان کے سوا للمومنین والمؤمنات اور جس قدر ایمان دار مرد اور عورت ہوں کہیں ہوں اور کسی زمانے میں ہوں سب کو معاف کر۔ ولاتزد الظالمین الاتبارا مگر ظالموں کو تو ہلاک ہی کر ڈال یہ بدبخت نہ بچیں۔ فائدہ : حضرت نوح (علیہ السلام) نے تمام مومنوں کے لیے دعائے خیر کی۔ پھر جس طرح ان کی بددعا کفار پر پڑی کوئی نہ بچا اور مقبول ہوگئی تو دعائے خیر کے مقبول ہونے میں کیا کلام ہے لیکن مومن ہونا چاہیے۔ اول ان پانچ ظاہری بتوں سے بچے مگر خانہ دل میں بھی یہ پانچوں بت موجود ہیں ان سے بھی دور رہے۔ ود تن پروری لذات خسیسہ کی محبت ہے۔ سواع نفس کی معشوقہ ہے جس کے لیے لذات و عیش و آرام میں غرق ہے اس لیے تکلیف و رنج سے بھاگتا اور تقویٰ و اطاعت میں قصور کرتا ہے۔ یغوث اس کے اقارب مادرو پدر و فرزند برادر ہیں جن کی مدد پر بھولا ہوا ہے جن کی دلجوئی میں حکم خدا اور رسول کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ برادری کی رسم پر مٹا ہوا ہے۔ یعوق اس کا مال و اسباب ہے کہ اس کو زکوٰۃ و صدقات سے روک رہا ہے اور بوقت ضرورت مال کی مدد پر بڑا بھروسہ ہے اور خدا سے غافل ہو رہا ہے۔ نسر اس کا شیطان ہے جو حرص و غصہ کے دونوں بازوئوں سے دفعۃً اڑ کر آتا ہے اور نیک و بد کی امتیاز کو کھو دیتا ہے اور وسواس اور خیالات فاسدہ اس کے دل میں ڈال کر ہزاروں برسوں کے اہتمام و انتظام میں لگا کر خدا سے دور پھینکتا ہے۔ ان پانچوں بتوں سے بھی بچنا چاہیے تاکہ ایمان کامل ہو اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا سے حصہ ملے۔ طوفان تمام دنیا پر آیا تھا نہ کہ بعض جگہ : فائدہ : اکثر مؤرخین کہتے ہیں کہ طوفان تمام دنیا پر آیا تھا کس لیے کہ اس وقت دنیا میں یہی بدکاری پھیلی ہوئی تھی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل کے سوا دنیا میں اور کوئی نسل باقی نہیں رہی یہ بھی ایک دلیل ہے۔ اور نیز قرآن مجید کی انہی آیات میں ولاتذرعلی الارض من الکافرین دیارا آیا ہے کہ زمین پر کسی کافر کو نہ چھوڑ۔ اور نیز کشتی میں ہر ایک چیز کا جوڑا لینا بھی اسی کی دلیل ہے کس لیے کہ طوفان اگر تمام دنیا پر نہ تھا تو ان چیزوں کی نسل منقطع ہوجانے کا کوئی سبب نہ تھا پھر کشتی میں لینے سے کیا فائدہ تھا ؟ رہا یہ شبہ کہ اور ملکوں کے لوگوں کے پاس حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت نہیں پہنچی کس لیے کہ وہ خاص ایک ملک میں رہے جہان میں پھر کر منادی کرنا ثابت نہیں پھر جب دعوت نہیں پہنچی تو بحکم آیت وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا۔ ان کا ہلاک کرنا منافی انصاف و عدالت ہے اور اگر اور قوموں میں بھی نبی آئے تھے تو ان کا کشتی میں سوار ہونا ثابت نہیں پھر وہ کیوں ہلاک ہوئے اور کشتی کے سوا اور کوئی چیز پناہ کے لیے نہ تھی۔ بقولہ ساوی الیٰ جبل یعصمنی من الماء الخ اس کا جواب یہ ہے کہ اور ملکوں میں رسول عقل توحید و مکارم اخلاق کا معلم ضرور آیا تھا اور نیز اس زمانے میں ایسی دور دراز جگہوں میں بنی آدم پھیلے ہوئے بھی نہیں تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی سینکڑوں برس کی منادی ان تک پہنچنا خیال میں آسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ان ایمانداروں میں سے جو آپ پر ایمان لائے تھے آپ کی طرف سے ان ممالیک میں گئے ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں صرف آرمینا وغیرہ بلاد ایشیائِ کو چک میں طوفان آیا تھا یا اس کے آس پاس کے ملکوں میں۔ مگر عام اہل اسلام اور یہود و عیسائی سب طوفان کے قائل ہیں لیکن بعض بت پرست قومیں انکار کرتی ہیں۔ ان کا انکار محض قیاسی بات ہے کسی دلیل و حجت پر مبنی نہیں۔ اور اہل ہند کی بعض کتابوں سے بھی طوفان کا پتا چلتا ہے۔ جس کے ذکر کی اس مختصر میں گنجائش نہیں۔ خدا تعالیٰ مجھے اور میرے والدین اور جمیع ایمانداروں کو اپنے غضب و قہر کے طوفان سے دنیا و آخرت میں بچائے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی کشتی میں پناہ دیتا رہے۔ آمین آمین۔
Top